ایک افریقی ملک کے ایک گاؤں پر مسلح ڈکیتوں کے حملے میں پینتالیس افراد کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔ ہلاک ہونے والے زیادہ تر وہ تھے، جو گاؤں کی چوکیداری و نگرانی میں شریک تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Utomi Ekpei
اشتہار
افریقی ملک نائجیریا کی شمال مغربی ریاست کادونا کے اسی نام کے دارالحکومت کے حکام نے بتایا ہے کہ ایک گاؤں گواسکا پر حملہ کر کے منظم جرائم پیشہ گروہ کے اراکین نے کم از کم پینتالیس افراد کو ہلاک کر دیا۔ ہلاک ہونے والوں میں بچے بھی شامل ہیں۔ کادونا شہر کے حکام نے امدادی حکام اور پولیس کی نفری روانہ کر دی ہے۔
حملہ آوروں کا تعلق کادونا کی ہمسایہ ریاست زام فارا سے بتایا گیا ہے۔ کادونا ریاست کی پولیس کے ترجمان مختار علی نے اس واردات اور ہونے والی ہلاکتوں کی تصدیق کر دی ہے۔ پولیس کے مطابق حملہ آوروں نے تین گھنٹے تک گاؤں میں دندناتے ہوئے عام لوگوں کے قتل کا سلسلہ جاری رکھا۔ کئی مکانات کو آگ بھی لگا دی گئی۔
گاؤں پر حملہ کر کے حملہ آوروں نے خاص طور پر ایسے افراد کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ہلاک کیا، جو لوگوں کو اپنی حفاظت کرنے اور گاؤں کے دفاع کی ليے مہم پر آمادہ کر رہے تھے۔ ہلاک ہونے والے افراد کی لاشیں گلیوں اور جھاڑیوں میں سے برآمد ہوئی ہیں۔ یہ حملہ چھ مئی کی سہ پہر کیا گیا۔
نائجیریا کے مختلف دیہات میں جرائم پیش گروہ پولیس کنٹرول سے آزاد خیال کیے جاتے ہیںتصویر: Getty Images/AFP/S. Heunis
زام فارا ریاست سے تعلق رکھنے والے جرائم پیشہ گروہ کو مویشیوں کی چوری، راہزنی، اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث بتایا جاتا ہے۔ گزشتہ ہفتے شمالی نائیجریا میں ایسے ہی ایک حملے میں دو درجن سے زائد افراد کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔
نائیجیریا کو اس وقت شدید سکیورٹی بحران کا سامنا ہے۔ وہاں پہلے کئی برسوں تک انتہا پسند مسلم عسکریت پسندوں کی تنظیم بوکو حرام نے قتل و غارتگری کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔ اُس کو کسی حد تک کنٹرول کیا گیا تو اب جرائم پیشہ افراد ابھرنا شروع ہو گئے ہیں۔ مختلف دیہات میں جرائم پیش گروہ پولیس کنٹرول سے آزاد خیال کیے جاتے ہیں اور انہوں نے حکومتی اختیار کو ایک طرح سے چیلنج کر رکھا ہے۔
مس مسلم ورلڈ کا تاج نائجیریا کی حسینہ کے نام
انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں اگرچہ گزشتہ تین برس سے ’مس مسلم ورلڈ‘ مقابلے کا انعقاد کیا جا رہا ہے تاہم سال 2013 کے مقابلے کے لیے پہلی مرتبہ غیر ملکی خواتین بھی شریک ہوئیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں مسلم خواتین کے مقابلہ حسن میں نائجیریا کی اکیس سالہ اوبیبئی عائشہ اجیبولہ فاتح قرار پائی ہیں۔ فائنل مقابلہ اٹھارہ ستمبر کو منعقد کیا گیا۔ اس حتمی مرحلے کے لیے نائجیریا سے دو جب کہ ملائیشیا، برونائی، ایران، بنگلہ دیش اور امریکا سے ایک ایک خاتون منتخب کی گئی تھیں۔
تصویر: Adek Berry/AFP/Getty Images
عائشہ اجیبولہ کو بطور انعام بائس سو ڈالر کی رقم ادا کی گئی جبکہ انہیں عمرے کے لیے ٹکٹ بھی دیا گیا۔ اس کے علاوہ انہیں ترکی اور بھارت کی مفت سیر بھی کرائی جائے گی۔ مس مسلم ورلڈ کا تاج پہننے والی مسلم ممالک میں پسماندہ خواتین کی خصوصی سفیر بھی نامزد ہوئیں۔
تصویر: Getty Images
جکارتہ میں اگرچہ گزشتہ تین برس سے ’مس مسلم ورلڈ‘ مقابلے کا انعقاد کیا جا رہا ہے تاہم سال 2013 کے مقابلے کے لیے پہلی مرتبہ غیر ملکی خواتین بھی شریک ہوئیں۔ گزشتہ منگل کو شروع ہونے والے چار روزہ سیمی فائنل مقابلے میں بیس خواتین نے فائنل کے لیے کوالیفائی کیا تھا۔
تصویر: Getty Images
مس مسلم ورلڈ کے فائنل تک رسائی حاصل کرنے والی خواتین میں زیادہ تر یونیورسٹی کی طالبات تھیں لیکن ان میں ایک آرکیٹیکٹ، ایک ڈاکٹر، ایک یونیورسٹی لیکچرر اور تحفظ ماحول کے لیے کام کرنے والی ایک متحرک کارکن بھی شامل تھیں۔
تصویر: Adek Berry/AFP/Getty Images
مس مسلم ورلڈ مقابلے میں شریک تمام خواتین کے لیے حجاب پہننا لازمی تھا۔ اس مقابلے میں منتخب ہونے کے لیے تین عمومی شرائط تھیں، خاتون نیک اور سمارٹ ہونے کے ساتھ ساتھ اسٹائلش بھی ہو۔
تصویر: Getty Images
اس مقابلے میں شریک ہونے کی خواہمشند خواتین نے درخواستیں آن لائن جمع کرائیں۔ اس درخواست کے ساتھ امیدوار نے اپنی قابلیت ظاہر کرنے کے لیے ایک مضمون بھی ارسال کیا اور ساتھ ہی ایک ایسی ویڈیو بھی بھیجی، جس سے ان کے تلاوت قرآن کی مہارت بھی ظاہر ہوتی ہے۔
تصویر: Getty Images
عائشہ نے یہ مقابلہ جیتنے کے بعد شکرانے کا سجدہ بھی ادا کیا۔ نائجیریا کی اکیس سالہ عائشہ نے کہا، ’’یہ ایک اچھوتا پروگرام ہے اور میں بہت زیادہ خوش ہوں۔‘‘ مس مسلم ورلڈ مقابلے پر تبصرہ کرتے ہوئے فارمیسی کی طالبہ عائشہ نے مزید کہا، ’’مس ورلڈ کے مقابلے میں یہ ایک بالکل مختلف ایونٹ ہے کیونکہ اُس میں ظاہری حسن اہم نہیں ہے بلکہ مس مسلم ورلڈ میں اندرونی حسن ہی معیار ہے۔‘‘
تصویر: Reuters
اس مقابلے میں شریک ہونے کی خواہمشند خواتین کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ وہ روزمرہ زندگی میں بھی حجاب پہنتی ہوں یا پھر ’اسلامی طریقے‘ کے مطابق سر کو ڈھانپتی ہوں۔
تصویر: Getty Images
اس مقابلے کی شرکاء نے سیمی فائنل مقابلے میں اسلامی مالیاتی نظام، بچوں کی ترییت اور قرآن کو سمجھنے کے حوالے سے مختلف کورسز میں بھی حصہ لیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مذہبی اور سماجی کاموں میں حصہ لینے کے دوران یہ خواتین مذہبی عبادات کے لیے علی الصبح تین بجے اٹھتی تھیں۔ اس دوران انہوں نے یتیم بچوں کے ساتھ بھی وقت گزارا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ابتدائی مرحلے میں ججوں نے 100 درخواست دہندگان کو سیمی فائنل کے لیے منتخب کیا گیا۔ مغربی جاوا میں منعقد ہوئے سیمی فائنل مقابلوں میں شرکاء خواتین نے تھکا دینے والے مذہبی اور سماجی کاموں میں حصہ لیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
’ورلڈ مسلم فاؤنڈیشن‘ کی بانی ایکا شانتے کا کہنا ہے کہ کئی برسوں تک کسی نے بھی ’مس ورلڈ‘ اور ’مس یونیورس‘ جیسے ایونٹس کا مقابلہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب لوگ یہ احساس کر سکتے ہیں کہ ’مس مسلم ورلڈ‘ عالمی مقابلہ حسن کا ایک اسلامی متبادل ہو سکتا ہے۔
تصویر: Getty Images
آئندہ مس مسلم ورلڈ کا مقابلہ برونائی میں منعقد کیا جائے گا جب کہ تین مختلف ممالک نے مستقبل میں ان مقابلوں کے انعقاد کے لیے درخواستیں جمع کرا دی ہیں۔ دریں اثناء انڈونیشیا کے حکام نے کہا ہے کہ بین الاقوامی مس ورلڈ کا مقابلہ اٹھائیس ستمبر کو طے شدہ پروگرام کے تحت ہی منعقد کیا جائے گا۔