بھارت میں سائنس دانوں اور ڈاکٹروں کو یہ پتہ لگانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ آیا ہندو دھرم کی مقدس کتاب وید میں شامل 'گائیتری منتر‘ سے کورونا کے مریضوں کا علاج ممکن ہے؟
اشتہار
بھارت کے محکمہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے تعاون سے ملک کے اہم ترین ہسپتالوں میں سے ایک آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس) رشی کیش میں سائنس داں اور ڈاکٹر یہ تحقیق کر رہے ہیں کہ آیا ہندوؤں کی مقدس کتاب وید میں شامل انتہائی اہم سمجھے جانے والے 'گائیتری منتر‘کو پڑھنے سے کورونا کے مریضوں کو صحت یاب ہونے میں مدد ملتی ہے یا نہیں۔
بھارت میں طبی سرگرمیوں پر نگاہ رکھنے والے حکومتی ادارے انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ (آئی سی ایم آر) نے اس کے کلینیکل ٹرائل کی اجازت دے دی ہے۔ انسانوں کی صحت پر پڑنے والے کسی بھی طرح کے اثرات کے طبی مطالعے کے لیے آئی سی ایم آر کی منظوری ضروری ہوتی ہے۔ اس پر آنے والا خرچ حکومت کا محکمہ سائنس و ٹیکنالوجی برداشت کرے گا۔
حکومتی ذرائع اور میڈیا میں شائع رپورٹوں کے مطابق کووڈ کے 'درمیانی علامات‘ والے بیس مریضوں پر یہ تجربہ کیا جائے گا۔ انہیں دو مساوی گروپوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ ایک گروپ کو کووڈ انیس کے علاج کے لیے مقررہ دوائیں دی جائیں گی جب کہ دوسرے گروپ سے معمول کے علاج کے ساتھ ساتھ چودہ دنوں تک 'گائیتری منتر‘ پڑھوایا جائے گا اور ان سے یوگا کی ایک مخصوص مشق 'پرانایم آسن‘ کرائی جائے گی۔
اس کے بعد یہ دیکھا جائے گا کہ دونوں طریقہ علاج سے دونوں گروپوں کے مریضوں پر کیا اثرات مرتب ہوئے اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ جن مریضوں نے گائیتری منتر پڑھا اور پرانایم یوگا کیا ان میں صحت یاب ہونے کی رفتار اور شرح کتنی رہی۔ علاج شروع کرنے سے قبل دونوں گروپوں کے تمام بیس مریضوں کی مختلف طرح کی طبی جانچ بھی کی جائے گی۔
چودہ دن کے تجربے کے بعد تمام بیس مریضوں کی دوبارہ طبی جانچ کی جائے گی اور یہ دیکھا جائے گا کہ آیا گائیتری منتر پڑھنے والے اور پرانایم یوگا کرنے والے مریضوں میں عام دواوں کے ذریعہ علاج کرانے والے مریضوں کے مقابلے میں کوئی فرق پڑا یا نہیں۔
ڈاکٹر یہ پتہ لگانے کی بھی کوشش کریں گے کہ جن مریضوں نے گائیتری منترپڑھا تھا ان میں مایوسی، پریشانی اور اضمحلال جیسی کیفیتوں میں کمی آئی یا نہیں۔
ایمس میں ماہر امراض تنفس ڈاکٹر روچی دووا کا کہنا ہے کہ اس تحقیق میں شامل ہونے والے افراد کا اندراج شروع ہو گیا ہے۔ اس کام میں یوگا کے ایک ماہر کو بھی ڈاکٹروں کی مدد کے لیے شامل کیا گیا ہے۔
کورونا وائرس کا مقابلہ گائے کے پیشاب سے کرنے کی کوشش
’آل انڈیا ہندو یونین‘ نے بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں ہفتے کے دن کورونا وائرس سے بچنے کی خاطر گائے کا پیشاب پینے کی ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا، جس میں کم ازکم دو سو ہندو افراد شریک ہوئے۔
تصویر: AFP/J. Andrabi
گائے کا پیشاب پینے کی تقریب
’آل انڈیا ہندو یونین‘ نے بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں ہفتے کے دن کورونا وائرس سے بچنے کی خاطر گائے کا پیشاب پینے کی ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا، جس میں کم ازکم دو سو ہندو افراد شریک ہوئے۔
تصویر: AFP/J. Andrabi
’طبی لحاظ سے فائدہ مند‘
بھارت میں کچھ ہندو گروپوں کا اصرار ہے کہ گائے کا پیشاب طبی لحاظ سے فائدہ مند ہے، اس لیے اسے پینے سے کورونا وائرس سے بچا جا سکتا ہے۔ اسی لیے اس تقریب میں خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Qadri
گائے بھی مقدس اور پیشاب بھی
تقریب میں شامل ایک خاتون گائے کا پیشاب پیتے ہوئے۔ ہندو مت میں گائے کو مقدس قرار دیا جاتا ہے اور یہی وجہ سے کہ کچھ قدامت پسند ہندوؤں میں اس طرح کے فرسودہ خیالات رائج ہیں۔
تصویر: AFP/J. Andrabi
کوئی طبی شواہد نہیں
تقریب میں شامل ایک ہندو پیشاب پیتے ہوئے۔ تاہم طبی ماہرین بارہا کہہ چکے ہیں کہ ایسے کوئی شواہد نہیں کہ گائے یا اونٹ کا پیشاب کینسر یا کسی دوسری بیماری کا علاج ثابت ہو سکتا ہے۔ عرب ممالک میں کچھ حلقے اونٹ کے پیشاب کو بھی طبی لحاظ سے شافی قرار دیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Qadri
ایسی مزید پارٹیاں ہوں گی
گائے کا پیشاب پینے کی پارٹی 'آل انڈیا ہندو یونین‘ کے نئی دہلی میں واقع صدر دفتر میں منعقد کی گئی تھی۔ منتظمین نے کہا ہے کہ اسی طرح کی پارٹیاں دیگر بھارتی شہروں میں بھی منعقد کی جائیں گی۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
’یہ پیشاب کورونا وائرس کو توڑ‘، مہاراج
’آل انڈیا ہندو یونین‘ کے سربراہ چکراپانی مہاراج نے اس تقریب کے دوران کورونا وائرس کے فرضی کیریکیچر (خاکے) کے ساتھ ایک تصاویر بھی بنوائی، جن میں وہ گائے کے پیشاب کا پیالہ تھامے نظر آ رہے ہیں۔ انہوں نے اس پیشاب کو کورونا وائرس کا توڑ قرار دیا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
’انگریزی دوا کی ضرورت نہیں‘
اس پارٹی میں شریک ہونے والے اوم پرکاش نے روئٹرز سے گفتگو میں کہا، ''ہم گزشتہ اکیس برسوں سے گائے کا پیشاب پیتے آ رہے ہیں اور ہم گائے کے گوبر سے نہاتے بھی ہیں۔ ہمیں کبھی بھی انگریزی دوا لینے کی ضرورت نہیں پڑی ہے۔‘‘
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Qadri
’کینسر کا علاج‘
طبی ماہرین کے علاوہ بھارت میں رہنے والے اکثریتی ہندوؤں کا کہنا ہے کہ گائے کا پیشاب یا گوبر طبی لحاظ سے کسی بیماری کا علاج نہیں ہو سکتا۔ تاہم حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کے متعدد رہنما وکالت کرتے ہیں کہ گائے کا پیشاب ایک دوا ہے اور اس سے بالخصوص کینسر کا علاج ممکن ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Qadri
’کورونا وائرس کے خلاف اہم ہتھیار‘
ریاست آسام میں وزیر اعظم نریندر مودی کی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک سیاستدان نے حال ہی میں اسمبلی کے اجلاس کے دوران کہا تھا کہ کورونا وائرس سے بچنے کی خاطر گائے کا پیشاب اور گوبر سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
عالمی وبا سے دنیا پریشان
کووڈ انیس کو عالمی وبا قرار دیا جا چکا ہے، جس کی وجہ سے کم ازکم پانچ ہزار افراد ہلاک جبکہ ایک لاکھ پینتالیس ہزار کے لگ بھگ متاثر ہو چکے ہیں۔ گزشتہ دسمبر چین سے پھوٹنے والی اس وبا کا ابھی تک کوئی علاج دریافت نہیں کیا جا سکا ہے۔ تاہم طبی ماہرین کی کوشش ہے کہ اس بیماری کے خلاف جلد از جلد کوئی دوا تیار کر لی جائے۔
تصویر: Reuters/D. Ruvic
10 تصاویر1 | 10
ایمس کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ”کورونا وائرس بنیادی طور پر انسانوں کے نظام تنفس کو متاثر کرتا ہے۔ گائیتری منتر ہندووں کے متبرک ترین دعاوں میں سے ایک ہے۔ کورونا وائرس کا کوئی موثر علاج یا ویکسین اب تک تیار نہیں ہو سکا ہے۔"
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ایسے وقت میں جب کہ سائنس داں اس وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے کسی معجزاتی دوا یا ویکسین تیار کرنے میں دن رات مصروف ہیں ”گائتری منتر پڑھنے اور پرانایم کرنے کا کردار اہم ہو جا تا ہے کیوں کہ دیگر بیماریوں میں ان کے استعمال سے خاطرخواہ فائدے دیکھنے کو ملے ہیں۔"
اشتہار
طبی علاج اور دھرم
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب بھارت میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی حکومت ہندو دھرم سے وابستہ کسی چیز کو کورونا وائر س کی وبا کے علاج کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
اس سے قبل مودی حکومت کے کئی وزراء اور بی جے پی کے متعدد رہنماوں نے گائے کے پیشاب اور گوبر کو کورونا سے بچنے میں مفید قرار دیا تھا۔ تاہم اب تک اس کے ثبوت نہیں مل سکے ہیں۔
آپ کی بلی کورونا وائرس تو پھیلا نہیں رہی؟
ایک حالیہ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ بلیاں اور فیریٹس کورونا وائرس کا شکار ہو سکتے ہیں اور رصدگاہی حالات میں وہ یہ وائرس اپنی اسپیشیز میں منتقل بھی کر سکتے ہیں، مگر دیگر پالتو جانوروں کو کورونا وائرس سے کم خطرات ہیں۔
تصویر: picture-alliance/F. Herrmann
کیا پالتو جانور رکھے جائیں؟
چین کی ہاربین یونیورسٹی کے محققین کے مطابق نئے کورونا وائرس پالتو بلیوں میں پھیل سکتا ہے۔ پالتوں بلیاں یہ وائرس اپنی اسپیشیز کے دیگر ارکان میں بھی یہ وائرس منتقل کر سکتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K-W. Friedrich
پریشان مت ہوں
وائرس منتقلی کی بات سے پالتو بلیوں کے مالکان پریشان مت ہوں۔ بلیوں میں زبردست مدافعاتی نظام ہوتا ہے اور اس لیے وہ زیادہ دیر تک اس وائرس کے پھیلاؤ کا باعث نہیں بنتیں۔ لیکن مشور ہے کہ طبی مسائل کے حامل افراد اپنی بلیوں کو مٹرگشت کو محدود کریں اور صحت مند افراد پالتو بلی پر ہاتھ پھیرنے کے بعد ہاتھوں کو صابن سے دھونا بہت ضروری ہے۔
تصویر: picture-alliance/imageBroker
کتے محفوظ ہیں
بلیوں کے مقابلے میں کتوں کے اندر وائرس کی افزائش کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔ اس لیے کتوں کے ساتھ اپنے کتوں کے ساتھ کھیل سکتے ہیں۔
تصویر: DW/F. Schmidt
کون سا جانور کسے بیمار کرتا ہے؟
اطالوی دارالحکومت روم کے پالتو سؤر اور کتے ایک دوسرے کو وائرس میں مبتلا نہیں کر رہے۔ سؤر کورونا وائرس کی قدرتی ڈھیر بھی تصور نہیں کیا جاتے۔
تصویر: Reuters/A. Lingria
فیریٹس کو قرنطینہ کرنا ضروری
ہاربین یونیورسٹی میں کی جانے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ کورونا وائرس کی نئی قسم مسٹیلاڈائی فیملی کے ارکان میں افزائش پا سکتے ہیں۔ اس میں فیریٹس، نیولے اور ان جیسے جانوروں شامل ہیں۔ یہ وائرس ایسے جانوروں کے نتھنوں سے نکلنے والے لعاب کے گرنے سے اِدھر اُدھر پھیل سکتا ہے۔
طبی محققین نے چکن اور اس کے گوشت یعنی پولٹری کا کاروبار کرنے والوں اور قصائیوں کے لیے پوری طرح محفوظ قرار دیا ہے۔ ماہرین کے مطابق چکن کا گوشت کھانے میں بھی کوئی پریشانی نہیں۔
تصویر: Getty Images/China Photos
جانوروں میں وائرس کی منتقلی
جانوروں سے انسانوں میں وائرس منتقل ہو سکتا ہے، مگر انسانوں سے بھی جانور بیمار ہو سکتے ہیں۔ نیویارک کے برونکس چڑیا گھر میں چار سالہ ملائین چیتا "نادیہ" میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔ کورونا وائرس کی انسان سے کسی جانور میں منتقلی کا یہ پہلا معلوم واقعہ ہے۔
تصویر: Reuters/WCS
چمگادڑیں یونہی بدنام ہیں؟
کورونا وائرس کی نئی قسم کا پھیلاؤ چمگادڑوں سے ہوا ہے لیکن ماہرینِ حیوانات کا کہنا ہے کہ سن 2019 کے مہینے دسمبر میں یہ وائرس چمگادڑوں سے کسی اور جانور کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوا تھا۔ اب یہ جانور کون سا ہے؟ یہ ایک سوال ہے جس کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش جاری ہے۔
گائیتری منتر ہندووں کی مقدس ترین کتاب وید کا ایک اہم منتر ہے۔ اس منتر کا ذکر ہندووں کی تمام مقدس اور اہم کتابوں میں ملتا ہے۔ عالم نزع میں بھی اس منتر کا جاپ کیا جاتا ہے۔ اس منتر کو ہندووں کی مذہبی اساس مانا جاتا ہے جس میں خدا کی تعریف وتوصیف کے بعد اس سے یہ التجا کی جاتی ہے کہ وہ صراط مستقیم کی رہنمائی فرمائے۔
تاریخی شواہد سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ایک عرصے تک اس منتر کو پڑھنے کی اجازت صرف مردوں اور اعلی ذات کے ہندووں کو ہی حاصل تھی تاہم جدید دور میں ہندو اصلاحی تحریکوں کے نتیجے میں خواتین اور دیگر ذات کے لوگوں کو بھی اس منتر کو پڑھنے کی اجازت مل گئی۔
علامہ اقبال اور گائیتری منتر
علامہ اقبال نے سنسکرت زبان سے گائیتری منتر کا آزاد ترجمہ کیا ہے۔ یہ نظم ان کی کتاب 'بانگ درا‘ میں 'آفتاب‘ کے عنوان سے شامل ہے۔
اے آفتاب! روح و روانِ جہاں ہے تو
شیرازہ بندِ دفترِ کون ومکاں ہے تو
باعث ہے تو وجود و عدم کی نمود کا
ہے سبز تیرے دم سے چمن ہست و بود کا
کورونا ویکسین لگوائیں یا نہیں، پاکستانی عوام کی سوچ منقسم