1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گائے چوری کرنے کی سزا، چار افراد زندہ جلا دیے گئے

مقبول ملک3 فروری 2014

مشرقی بھارت کی ریاست مغربی بنگال میں مویشی اسمگل کرنے والے مجرموں کے ایک گروپ نے مبینہ طور پر ایک گائے چوری کرنے کے جرم میں ایک حریف گروہ کے چار افراد کو زندہ جلا دیا۔

تصویر: Shaikh Azizur Rahman.

مغربی بنگال کے ریاستی دارالحکومت کولکتہ سے ملنے والی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق چار افراد کے قتل کا یہ واقعہ بظاہر مویشی اسمگل کرنے والے مجرموں کے دو گروہوں کے مابین تنازعے کا نتیجہ ہے۔ کولکتہ کے نواحی شہر سیلی گُوری کے پولیس کمشنر جگموہن نے صحافیوں کو بتایا کہ حکام کو اس ریاست میں بنگلہ دیش کے ساتھ قومی سرحد کے قریب ایک گاؤں سے اتوار کی رات چار افراد کی ایسی لاشیں ملیں، جو بری طرح جلی ہوئی تھیں۔

پولیس کمشنر جگموہن کے بقول، ’’حکام کو اس گاؤں میں ایک جلی ہوئی وین سے دو انسانی لاشوں کے علاوہ ایک ایسی گائے بھی ملی جو چوری شدہ جانوروں میں سے ایک تھی۔ اس کے علاوہ اس وین کے قریب ہی سے پولیس اہلکاروں کو دو دیگر لاشیں بھی ملیں۔ ان دونوں ہلاک شدگان کو بھی آگ لگا کر جلا دیا گیا تھا۔

مغربی بنگال کے مخلف حصوں سے مویشیوں کو بنگلہ دیش کے ساتھ سرحد کے قریب تک پہنچایا جاتا ہے، جہاں سے انہیں سرحد پار اسمگل کر دیا جاتا ہےتصویر: Shaikh Azizur Rahman

پولیس کے مطابق چار میں سے دو انسانی لاشیں ایسی تھیں، جو اتنی بری طرح جل چکی تھیں کہ ان کی شناخت ممکن نہیں رہی تھی۔ باقی دو لاشیں جزوی طور پر جلی ہوئی تھیں، جن پر زخموں اور تشدد کے گہرے نشانات موجود تھے۔ پولیس کمشنر جگموہن کے مطابق ابتدائی چھان بین سے ثابت ہوا کہ چاروں مقتولین پر انہیں زندہ جلا دینے سے قبل شدید تشدد کیا گیا تھا اور قاتلوں اور مقتولین کا تعلق مویشی اسمگل کرنے والے دو حریف گروہوں سے تھا۔

اے ایف پی نے لکھا ہے کہ کولکتہ سے قریب 620 کلو میٹر کے فاصلے پر بالا رام جوتی نام گاؤں میں پیش آنے والے اس واقعے کے سلسلے میں تاحال کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی اور چاروں لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لیے ایک قریبی سرکاری ہسپتال پہنچا دیا گیا ہے۔

حکام کے مطابق مغربی بنگال اور بنگلہ دیش کے درمیان سرحد کے قریبی علاقوں میں مویشیوں کی چوری معمول کے جرائم میں شمار ہوتی ہے اور چوری کے بعد ایسے جانوروں کو اسمگل کر کے سرحد پار پہنچا دیا جاتا ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں