گائے کے حوالے سے مسلمانوں کے خلاف تشدد، بھارتی فوجی گرفتار
9 دسمبر 2018
مبينہ طور پر ایک گائے کو ذبح کيے جانے کے بعد ہجوم اکٹھا کرنے اور مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے الزام میں ایک بھارتی فوجی کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس ہنگامہ آرائی کے دوران دو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اشتہار
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق مشتعل ہجوم کو تشدد پر اکسانے کے شک پر ايک مرکزی ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ گزشتہ پیر کے روز بھارتی ریاست اتر پردیش کے بلند شہر میں انتہا پسند ہندوؤں نے مقامی مسلمانوں کے خلاف پرتشدد احتجاج کیا، جس کے نتیجے میں پولیس افسر سبودھ کمار سنگھ اور ایک شہری ہلاک ہو گئے تھے۔
اس احتجاج کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا، جب یہ خبریں سامنے آئیں کہ مبینہ طور پر ایک گائے کو ذبح کیا گیا۔ دائیں بازو کے قوم پرست ہندوؤں کا کہنا تھا کہ پولیس ’مقدس گائیوں‘ کی حفاظت کرنے میں ناکام ہو چکی ہے اور اس علاقے سے جانوروں کی الاشیں ملی ہیں، جن میں گائیوں کی الاشیں بھی شامل ہیں۔
بھارت کی زیادہ تر ہندو آبادی گائے کو ’مقدس‘ خیال کرتی ہے اور ملک کی زیادہ تر ریاستوں میں ان کے ذبح پر پابندی عائد ہے۔ دائیں بازو کے انتہاپسند ہندو ملک بھر میں متعدد مرتبہ ایسے افراد کو تشدد کا نشانہ بنا چکے ہیں، جو گائے کو ذبح یا پھر ان کا گوشت استعمال کرتے ہیں۔
پولیس کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق بلند شہر میں ہنگاموں کے مرکزی ملزم کا نام جتندر ملک ہے اور گزشتہ شب فوج نے اسے پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔ اس حوالے سے جاری کی جانے والی ویڈیو فوٹیج مقامی میڈیا پر بھی نشر کی گئی ہے۔
جس وقت یہ ہنگامے ہوئے، اس وقت یہ بھارتی فوجی چھٹی پر اپنے گھر واپس آیا ہوا تھا۔ سینئر پولیس افسر انند کمار کا مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’یہ فوجی واضح طور پر مشکلات پیدا کر رہا تھا اور ہجوم کو تشدد پر اکسا رہا تھا۔ ہم اس سے مکمل تفتیش کریں گے۔‘‘
پولیس نے امید ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس کیس میں کئی دیگر قوم پرست ہندوؤں کو بھی گرفتار کرے گی۔ ابھی تک اس حوالے سے چار ملزمان کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
بھارت کے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق سن دو ہزار بارہ سے سن دو ہزار سترہ کے درمیان گائے کے حوالے سے کم از کم اسی پرتشدد واقعات سامنے آئے اور ان میں سے ستانوے فیصد ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد رونما ہوئے ہیں۔
ا ا / ع س (نیوز ایجنسیاں)
گائے کیوں بن رہی ہیں یہ خواتین؟
بھارتی فوٹوگرافر سجاترو گھوش نے اپنے ایک پراجیکٹ میں ایک سیاسی سوال اٹھایا ہے کہ کیا بھارت میں خواتین کی وقعت گائے سے کم ہے؟ انہوں نے گائے کے نام پر تشدد اور تحفظ خواتین کے مسئلے کو عمدگی سے ایک لڑی میں پرو دیا ہے۔
تصویر: Handout photo from Sujatro Ghos
کیا گائے کی اہمیت زیادہ ہے؟
تئیس سالہ فوٹوگرافر سجاترو گھوش کہتے ہیں کہ ان کے اس پراجیکٹ کا مقصد خواتین کے خلاف ہونے والے تشدد کے مسئلے کو اٹھانا ہے۔ ان کے مطابق، ’’اگر ہم گائے کو بچا سکتے ہیں تو پھر خواتین کو کیوں نہیں۔‘‘
تصویر: Handout photo from Sujatro Ghos
حقوق نسواں کے لیے آواز
گھوش کا کہنا ہے کہ گائے کو بچانے کے نام پر لوگوں کو سر عام قتل کیا جا رہا ہے لیکن خواتین کے تحفظ کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ حکومتی اعداد وشمار کے مطابق بھارت میں ہر پندرہ منٹ بعد ایک خاتون کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/S. Ghosh
گائے کے ماسک
گھوش کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے انہوں نے اپنی دوستوں اور خاندان کی خواتین کو گائے کا ماسک پہنا کر ان کی تصاویر اتاریں۔ لیکن اب بہت سی اور خواتین بھی ان کے پراجیکٹ کا حصہ بننا چاہتی ہیں۔
تصویر: Reuters/S. Ghosh
سماجی دشواریاں
بھارت میں جنسی حملوں کے بہت سے کیس تو درج ہی نہیں ہوتے ہیں، کیونکہ کئی بار متاثرہ خاتون کو حملہ آوروں کی جانب سے دوبارہ پریشان کیے جانے کا ڈر رہتا ہے۔ سماجی سطح پر ایسے دقیانوسی نظریات عام ہیں، جن کی وجہ سے متاثرہ خواتین یا ان کے گھر والے خاموش بھی ہو جاتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Sharma
گائے کے نام پر تشدد
حالیہ برسوں کے دوران بھارت میں گائے کے نام پر تشدد کے کئی واقعات رپورٹ کیے جا چکے ہیں۔ کئی واقعات میں تو گائے کا گوشت مبینہ طور پر کھانے پر لوگوں کو قتل بھی کیا جا چکا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J.F. Monier
خواتین کے خلاف جرائم
بھارت میں سن 2012 خواتین کی حفاظت کے لیے قوانین سخت کر دیے گئے تھے لیکن اس کے باوجود سن 2015 میں خواتین کے خلاف مختلف قسم کے جرائم کے 327،390 واقعات رپورٹ ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
گھوش پر تنقید
اس دوران سجاترو گھوش کو سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے۔ بہت سے لوگ ان پر گائے کی توہین کرنے کا الزام لگا رہے ہیں۔
تصویر: AP
بہتری کی امید
گھوش کو امید ہے کہ لوگ ان کے اس پیغام کو درست طریقے سے سمجھیں گے کہ جس طرح گائے کو بچانے کی کوشش ہو رہی ہیں، اسی طرح خواتین کو بھی بچانے کی ضرورت ہے۔