گارمنٹس فیکٹریوں کے مزدوروں کو شدید گرمی سے لاحق خطرات
9 دسمبر 2024دنیا میں گارمنٹس تیار کرنے والے سب سے بڑے ممالک بنگلہ دیش، ویتنام اور پاکستان میں اس شعبے میں کام کرنے والےکارکنوں کو شدید گرمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ امریکہ کی کارنیل یونیورسٹی میں قائم گلوبل لیبر انسٹی ٹیوٹ کے محققین کی ایک رپورٹ کے مطابق ان ورکروں کو اس شدید گرمی کا سامنا موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے کرنا پڑ رہا ہے۔
اتوار کے روز جاری کردہ اس رپورٹ میں بین الاقوامی ریٹیلرز اور برانڈز پر زور دیا گیا ہے کہ انہیں اس مسئلے کے حل میں مدد دینی ہو گی۔ یورپی یونین کے نئے ضوابط انڈیٹیکس، ایچ اینڈ ایم اور نائکی جیسے کمپنیوں کو قانونی طور پر اس بات کے پابند بناتے ہیں کہ وہ اپنے سپلائرز پر ان کے کارخانوں کے ماحول کو بہتر بنانے کے لیے دباؤ ڈالیں۔
محققین کے مطابق گزشتہ چار سالوں کے دوران ڈھاکہ، ہنوئی، ہو چی من سٹی، نوم پن اور کراچی میں ''گیلے بلب‘‘ والے درجہ حرارت کے دنوں میں 42 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ یہ درجہ حرارت کی پیمائش کی وہ اصطلاح ہے، جس میں ہوا کا درجہ حرارت اور نمی 30.5 ڈگری سیلسیس سے اوپر ہو۔
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن درجہ حرارت کی مذکورہ حد سے زائد ہونے پر انسانی جسم کے درجہ حرارت کی محفوظ سطح کو برقرار رکھنے کے لیے آرام کی سفارش کرتی ہے۔ اس رپورٹ میں صرف تین کمپنیوں نائیکی، لیوائس اور وی ایف کور کی نشاندہی کی گئی ہے، جو خاص طور پر اپنے سپلائر کے ضابطہ اخلاق میں کارکنوں کو گرمی کی تھکن سے بچانے کے لیے پروٹوکول شامل کرتے ہیں۔
کارنیل یونیورسٹی کے گلوبل لیبر انسٹی ٹیوٹ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر جیسن جڈ نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا،''ہم اس مسئلے کے بارے میں کئی سالوں سے برانڈز سے بات کر رہے ہیں، اور وہ ابھی اس پر توجہ دینا شروع کر رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا ،''اگر کوئی برانڈ یا ریٹیلر جانتا ہے کہ پیداواری علاقے میں درجہ حرارت بہت زیادہ ہے یا کارکنوں کی صحت کو نقصان پہنچا رہا ہے ، تو وہ اس کے بارے میں کچھ کرنے کے لیے یورپی یونین کے نئے قواعد کے پابند ہیں۔‘‘
یورپی یونین کے کارپوریٹ سسٹین ایبلٹی ڈیو ڈیلیجنس ڈائریکٹیو کا نفاز رواں برس جولائی میں کیا گیا اور یہ 2027 کے وسط سے بڑی کمپنیوں پر لاگو ہونا شروع ہو جائے گا۔ اس میں کارخانوں کو ٹھنڈا رکھنے، بہتر وینٹیلیشن اور پانی کے بخارات سے متعلق ماحول دوست کولنگ سسٹم کی تنصیب شامل ہو گی۔
جڈ نے کہا کہ کچھ فیکٹری مالکان گرمی کے دباؤ میں پیداواری صلاحیت کے نمایاں طور پر متاثر ہونے کو دیکھتے ہوئے ممکنہ طور پر خود ہی اس طرح کی سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار ہوں گے، تاہم جڈ کے بقول یورپی یونین کے قوانین اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے برانڈز کی ذمہ داری کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔
رپورٹ میں خوردہ فروشوں اور برانڈز پر بھی زور دیا گیا ہے کہ وہ فیکٹری مزدوروں کے لیے زیادہ اجرت اور ان کی صحت کے تحفظ میں سرمایہ کاری کریں تاکہ کارکن گرمی کی لہر کی وجہ سے کام کے دنوں میں کمی کے خطرے کو ٹال سکیں۔ اثاثہ جات کی منتظم کمپنی شروڈرز اور گلوبل لیبر انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے گزشتہ سال کی گئی ایک تحقیق میں پایا گیا تھا کہ شدید گرمی اور سیلاب سے بنگلہ دیش، کمبوڈیا، پاکستان اور ویتنام سے ملبوسات کی برآمدات میں 2030 تک 65 بلین ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے۔
ش ر⁄ ک م (روئٹرز)