1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گارمنٹس فیکٹری میں آگ، ہلاکتیں 289 تک پہنچ گئیں

Afsar Awan12 ستمبر 2012

کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاون میں قائم ایک گارمنٹس فیکٹری میں لگنے والی خوفناک آگ سے جھلس کر ہلاک ہونے والے 289 افراد کی لاشیں اب تک نکالی جا چکی ہیں۔ حکام کے مطابق ہلاکتوں میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔

تصویر: Getty Images

بلدیہ ٹاؤن میں واقع فیکٹری میں آگ کے بعد امدادی کاموں کے بارے میں کمشنر کراچی روشن علی شیخ کا کہنا ہے، ’’فیکٹری میں بھڑکنے والی آگ پر مکمل طور پر قابو پایا جا چکا ہے جبکہ امدادی کاروائیاں تاحال جاری ہیں۔۔۔ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے کیونکہ ابھی حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ فیکٹری میں مزید کتنی لاشیں موجود ہیں۔‘‘

روشن علی کے مطابق عمارت کے تہہ خانے میں کولنگ کا کام جاری ہے جس کے بعد وہاں موجود مزید لاشوں کے حوالے سے بتایا جا سکے گا۔

صوبہ سندھ کے وزیر صحت ڈاکٹرصغیر احمد کے مطابق اب تک جناح اسپتال میں 71 ، عباسی شہید اسپتال میں 97 جبکہ سول اسپتال میں83 لاشیں لائی جا چکی ہیں ۔ ان کے مطابق اب تک 113لاشیں شناخت کے بعد ورثا کے حوالے کی جا چکی ہیں۔ ڈاکٹر صغیر کا مزید کہنا تھا کہ ناقابل شناخت لاشوں کو ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے شناخت کے بعد ورثا کے حوالے کیا جائے گا۔

آئی جی سندھ کے مطابق اس حوالے سے ایک تحقیقاتی کمیشن قائم کر دیا گیا ہے۔ ابتدائی میڈیا رپورٹس کے مطابق آگ بظاہر شارٹ سرکٹ کے باعث لگی ہے۔ مزید یہ کہ آگ لگنے کے وقت لوڈ شیڈنگ کے باعث جنریٹر چل رہا تھا۔ آگ لگنے کے بعد فیکٹری کا مرکزی دروازہ بند کر دیا گیا تھا جس کے باعث ہلاکتوں میں اضافہ ہوا۔

فیکٹری کے زخمی سپر وائزر کے مطابق واقعے کے وقت عمارت میں600 سے 700 کے درمیان ملازمین موجود تھے جنہیں تنخواہیں ادا کی جا رہی تھی۔

اس آگ سے زخمی ہونے والے ایک مزدور نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا، ’’منگل کی شام ساڑھے چھ بجے ملازمین کو تنخواہیں دی جا رہی تھی کہ بجلی چلی گئی جس کے بعد اچانک آگ بھڑک اٹھی۔۔۔ اندر آنے اور باہر جانے کے لیے صرف ایک گزر گاہ موجود تھی۔‘‘

فیکٹری کے زخمی سپر وائزر کے مطابق واقعے کے وقت عمارت میں600 سے 700 کے درمیان ملازمین موجود تھے جنہیں تنخواہیں ادا کی جا رہی تھیتصویر: Getty Images

چند عینی شاہدین نے دعویٰ کیا ہے موقع پر موجود فیکٹری مالکان نے اس واحد دروازے پر تالے ڈال دیے تھے، تاکہ فیکٹری میں آگ کے بعد افراتفری میں کوئی موقع اٹھاتے ہوئے وہاں موجود سامان چوری نہ کر سکے۔

موقع پر موجود ریسکیو اہلکاروں کے مطابق اس وقت بیسمنٹ میں کافی حد تک پانی کھڑا ہے اور خدشہ ہے کہ اس پانی اور وہاں موجود سامان کے نیچے بھی بڑی تعداد میں لاشیں دبی ہوئی ہیں۔ جبکہ بارش اور اندھیرا ہونے کے باعث امدادی کاروائیوں میں مشکلات بھی پیش آرہی ہیں۔

گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد بھی امدادی کارروائیوں کا جائزہ لینے کے لیے بدھ کی شام جائے حادثہ پہنچے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس واقعے میں جن محکموں نے بھی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے ان کے خلاف ایکشن لیا جا رہا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کمشنر کراچی کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ کراچی میں جتنی بھی صعنتیں ہیں جلد ہی ان کا جائزہ لے کر سکیورٹی کے حوالے سے دوبارہ سرٹیفائی کیا جائے گا۔

روشن علی کے مطابق عمارت کے تہہ خانے میں کولنگ کا کام جاری ہے جس کے بعد وہاں موجود مزید لاشوں کے حوالے سے بتایا جا سکے گاتصویر: Getty Images

آتشزدگی کے باعث اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتوں پر پاکستانی صدر آصف علی زرداری ، وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف سمیت دیگر سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں نے افسوس کا اظہار کیا ہے اور واقعے کی تحقیقات جلد سے جلد مکمل کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

کراچی کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ایم کیو ایم سمیت کئی دیگر جماعتوں نے کراچی میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔

وفاقی حکومت کی جانب سے واقعے میں ہلاک ہونے والوں کے ورثا کو پانچ پانچ لاکھ جبکہ زخمیوں کو دو لاکھ روپے امداد کا اعلان کیا گیا ہے۔

کمشنر کراچی روشن علی شیخ کے مطابق سانحے کی رپورٹ درج کر لی گئی ہے اور تحقیات کے لیے کمیٹی تشکیل دی جا چکی ہے، جو تین دن کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔ جس کے بعد ذمہ داران کا تعین کیا جائے گا۔ شیخ کے مطابق فیکٹری کے مالکان کی گرفتاری کے لیے مختلف جگہوں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں تاہم وہ فرار ہیں۔ مزید یہ کہ ان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کر لیے گئے ہیں۔


رپورٹ: عنبرین فاطمہ

ادارت: افسر اعوان

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں