گاما پہلوان کی نواسی پارلیمانی نشست کے لیے لڑیں گی
صائمہ حیدر
11 اگست 2017
پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز شریف نے اپنے شوہر کے نااہل قرار دیے جانے کے بعد قومی اسمبلی کی خالی ہونے والی نشست پر ضمنی انتخاب کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرا دیے ہیں۔
اشتہار
شریف خاندان کے مشیر آصف کرمانی نے آج لاہور میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ این اے بیس کے لیے بیگم کلثوم نواز شریف کے کاغذاتِ نامزدگی پاکستان کے الیکشن کمیشن میں جمع کرا دیے گئے ہیں۔
اس نشست پر یہ ضمنی انتخاب آئندہ پینتالیس روز کے اندر کرایا جائے گا۔ کلثوم نواز کے مد مقابل پاکستان تحریک انصاف کی یاسمین راشد ہیں۔
پاکستان کے مقامی میڈیا کے مطابق کلثوم نواز شریف کا مقابلہ پاکستان تحریک انصاف کی یاسمین راشد سے ہو گا۔ تاہم پی ٹی آئی کے علاوہ پیپلز پارٹی کے زبیر کاردار اور فیصل میر نے بھی اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔
خیال رہے کہ نواز شریف کو سپریم کورٹ سے نااہل کیے جانے کے بعد لاہور میں این اے بیس خالی ہو گئی تھی اور پہلے ایسی اطلاعات تھیں کہ نواز شریف کے بھائی اور پنجاب کے وزیر اعلی شہباز شریف اس نشست پر ضمنی انتخاب لڑیں گے۔
یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ وہ پاکستان کے مایہ ناز پہلوان رستم زماں گاما پہلوان کی نواسی ہیں۔ کلثوم اس وقت بھی سیاسی میدان میں اتریں تھیں جب سابق آرمی چیف پرویز مشرف نے اُن کے شوہر نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا دیا تھا۔ سن انیس سو نناوے میں نواز شریف کی گرفتاری کے بعد پارٹی صدارت کا عہدہ بھی کلثوم نواز نے ہی سنبھالا تاہم سن 2002 میں اس منصب سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
نواز شریف: تین مرتبہ پاکستان کا ’ادھورا وزیراعظم‘
پچیس دسمبر 1949 کو پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔ نواز شریف تین مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے، لیکن تینوں مرتبہ اپنے عہدے کی مدت مکمل نہ کر سکے۔
تصویر: Reuters
سیاست کا آغاز
لاھور کے ایک کاروباری گھرانے میں پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز سن ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔
تصویر: AP
پنجاب کا اقتدار
جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف سن 1985 میں پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔
تصویر: AP
وفاقی سطح پر سیاست کا آغاز
سن 1988 میں پاکستان پیپلز پارٹی وفاق میں اقتدار میں آئی اور بینظیر بھٹو ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں۔ اس وقت نواز شریف پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تاہم اسی دور میں وہ ملک کی وفاقی سیاست میں داخل ہوئے اور دو برس بعد اگلے ملکی انتخابات میں وہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار بنے۔
تصویر: AP
پہلی وزارت عظمیٰ
پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ کے طور پر میاں محمد نواز شریف سن 1990 میں پہلی مرتبہ ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ ان کے دور اقتدار میں ان کا خاندانی کاروبار بھی پھیلنا شروع ہوا جس کے باعث ان کے خلاف مبینہ کرپشن کے شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔
تصویر: AP
وزارت عظمیٰ سے معزولی
سن 1993 میں اس وقت کے وفاقی صدر غلام اسحاق خان نے اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے معزول کر دیا۔ نواز شریف نے اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ کا رخ کیا۔ عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے نواز شریف کی حکومت بحال کر دی تاہم ملک کی طاقتور فوج کے دباؤ کے باعث نواز شریف نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: AP
دوسری بار وزیر اعظم
میاں محمد نواز شریف کی سیاسی جماعت سن 1997 کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی جس کے بعد وہ دوسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوئے۔
تصویر: AP
فوجی بغاوت اور پھر سے اقتدار کا خاتمہ
نواز شریف دوسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ حکومت اور ملکی فوج کے مابین تعلقات کشیدگی کا شکار رہے اور فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو ہٹانے کے اعلان کے بعد فوج نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔
تصویر: AP
جلا وطنی اور پھر وطن واپسی
جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف کے خلاف طیارہ ہائی جیک کرنے اور دہشت گردی کے مقدمات درج کیے گئے اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ تاہم بعد ازاں انہیں جلاوطن کر دیا گیا۔ جلاوطنی کے دور ہی میں نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے ’میثاق جمہوریت‘ پر دستخط کیے۔ سن 2007 میں سعودی شاہی خاندان کے تعاون سے نواز شریف کی وطن واپسی ممکن ہوئی۔
تصویر: AP
تیسری مرتبہ وزیر اعظم
سن 2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون ایک مرتبہ پھر عام انتخابات میں کامیاب ہوئی اور نواز شریف تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے۔ تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد انہیں مسلسل پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پھر ’ادھوری وزارت عظمیٰ‘
نواز شریف تیسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں ناکام ہوئے۔ سن 2016 میں پاناما پیپرز کے منظر عام پر آنے کے بعد ان کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہوا اور آخرکار اٹھائی جولائی سن 2017 کو ملکی عدالت عظمیٰ نے انہیں نااہل قرار دے دیا۔