1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گاندھی جی کے میوزیم میں تصویروں پر ’غدار‘ لکھ دیا گیا

4 اکتوبر 2019

گاندھی جی کے ایک سو پچاسویں جنم دن پر نامعلوم افراد نے مہاتما گاندھی کے میوزیم میں سبز رنگ سے تصاویر پر ’غدار‘ لکھ دیا۔

Indien Friedensmarsch von Neu Delhi nach Genf
تصویر: Getty Images/AFP/M. Sharma

بھارت کی وسطیٰ ریاست مدھیہ پردیش کے ضلع ریوا میں باپو بھوون میموریل میں مہاتما گاندھی کی تصاویر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا یہ واقعہ ان کی ایک سو پچاسویں سال گرہ کی تقاریب کے دوران پیش آیا ہے۔ جمعے کے روز حکام نے بتایا کہ اس واقعے کی تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔

بتایا گیا ہے کہ نامعلوم افراد نے اس یادگاری مقام میں داخل ہو کر گاندھی جی کی تصویر پر نازیبا کلمات لکھے۔

گاندھی کی 150ویں سالگرہ اور مودی کا ٹوائلٹ منصوبہ

مودی سرکار کشمیر کی سچائی چھپا رہی ہے: بھارتی اپوزیشن کا الزام

آل انڈیا کانگریس سے وابستہ اس یادگاری مقام کے منتظمین کے مطابق دو اکتوبر کو مہاتما گاندھی کی سال گرہ کے موقع پر جب وہ باپو بھون میں داخل ہوئے، تو انہیں گاندھی جی کے پورٹریٹ پر 'غدار‘ جیسے الفاظ لکھے دکھائی دیے۔

پولیس کے مطابق اس واقعے کی تفتیش شروع کر دی گئی ہے، تاہم اب تک اس واقعے میں ملوث افراد سے متعلق کوئی معلومات دستیاب نہیں ہیں جب کہ اس سلسلے میں کوئی گرفتاری بھی عمل میں نہیں آئی ہے۔

پولیس نے کانگریس پارٹی کے مقامی رہنما گُرمیت سنگھ مانگو کی یہ شکایت رد کر دی ہے، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس میوزیم سے گاندھی جی کی راکھ غائب ہے۔ پولیس کے مطابق گاندھی جی کی راکھ کبھی اس میوزیم میں نہیں رکھی گئی تھی۔

پولیس کے مطابق اس حوالے سے 'قومی یگانگت کے توہین‘ کے الزام کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے اور تفتیش کی جا رہی ہے۔ فی الحال کسی گروپ کی جانب سے اس واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی ہے۔

یہ بات اہم ہے کہ ہندو انتہاپسند گاندھی جی کے نظریات سے شدید اختلاف کرتے ہیں اور ان پر تقسیم ہندوستان اور پاکستان کی تخلیق کا الزام بھی عائد کرتے ہیں۔

یہ بات اہم ہے کہ گاندھی جی کو تیس جنوری 1948 کو ایک ہندو شدت پسند ناتھورام گوڈسے نے گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔ گاندھی جی کی راکھ بھارت کے کئی علاقوں میں بھیجی گئی تھی اور اسے کئی دریاؤں میں بہایا گیا تھا۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں