گاندھی خاندان کی پارٹی استعفوں کی پیشکش مسترد
20 مئی 2014نئی دہلی سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق سونیا گاندھی اور راہول گاندھی نے اپنے استعفوں کی پیشکش پارٹی کے اعلیٰ ترین فیصلہ ساز ادارے کے پیر کے روز ہونے والے ایک اجلاس میں کی، جس پر اجلاس کے شرکاء نے ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے ان دونوں رہنماؤں پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اس پیشکش کو رد کر دیا گیا۔
پارٹی کے ایک ترجمان نے بعد ازاں صحافیوں کو بتایا کہ کانگریس کی مرکزی ورکنگ کمیٹی نے 67 سالہ سونیا گاندھی اور ان کے بیٹے راہول گاندھی سے، جو کانگریس کے نائب صدر ہیں، درخواست کی کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پہلے کی طرح انجام دیتے رہیں۔ حالیہ الیکشن میں لوک سبھا کہلانے والی 543 رکنی ملکی پارلیمان میں کانگریس پارٹی صرف 44 نشستیں حاصل کر سکی جبکہ اس کی بڑی مخالف اور ہندو قوم پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی BJP قطعی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
بھارتی انتخابات میں بی جے پی کو جو زبردست کامیابی ملی ہے، وہ پہلا موقع ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والے بھارت میں گزشتہ 30 برسوں کے دوران کسی ایک پارٹی کو اتنی زیادہ نشستیں حاصل ہوئی ہیں کہ وہ اکیلے ہی حکومت بنا سکتی ہے۔
حالیہ انتخابات سے قبل دس برس تک حکومت میں رہنے والی کانگریس پارٹی نے اقتدار میں اپنی موجودگی کو ایک متحدہ ترقی پسند اتحاد کے ذریعے ممکن بنایا تھا کیونکہ کانگریس پارٹی کو عرصہ ہوا عام انتخابات میں اتنی زیادہ عوامی تائید نہیں مل سکی کہ وہ ایوان میں قطعی اکثریت کے ساتھ اور کسی دوسری پارٹی کی مدد کے بغیر ہی حکومت سازی کر سکتی۔
لیکن ہندو قوم پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے عشروں بعد ایسا کر دکھایا اور اب کانگریس کے منموہن سنگھ اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد عبوری وزیر اعظم کے فرائض انجام دے رہے ہیں جبکہ بی جے پی کے ووٹرز وزارت عظمیٰ کے لیے پارٹی کے امیدوار نریندر مودی کی حلف برداری کا انتظار کر رہے ہیں۔
نریندر مودی آج منگل کے روز بھارتی صدر پرنب مکھرجی سے ملاقات کر رہے ہیں۔ اس ملاقات کا مقصد ملکی صدر کو باقاعدہ طور پر آگاہ کرنا ہے کہ بی جے پی لوک سبھا میں اس پوزیشن میں ہے کہ اگلی حکومت قائم کر سکے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ذرائع نے خبر ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ مودی کی صدر مکھرجی سے آج کی ملاقات وہ پہلا رسمی مرحلہ ہے، جس کے بعد مودی نئے بھارتی وزیر اعظم کے طور پر اپنے عہدے کا حلف اٹھا سکیں گے۔
اے ایف پی نے اپنے ایک تجزیے میں لکھا ہے کہ بھارت کی آزادی سے لے کر آج تک کانگریس پارٹی نے ہمیشہ ہی ملک پر حکومت کی ہے، سوائے مجموعی طور پر ان 13 برسوں کے جب وہ اپوزیشن میں تھی۔ اس میں کانگریس کی قیادت میں بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی اس مخلوط مرکزی حکومت کے دس سال بھی شامل ہیں جس کی سربراہی منموہن سنگھ نے کی اور جو چند روز پہلے تک اپنے اقتدار کے تسلسل کی امیدیں لگائے بیٹھی تھی۔
اے ایف پی کے مطابق دائیں بازو کی جماعت بی جے پی نے سخت گیر نظریات رکھنے والے سیاستدان نریندر مودی کے ذریعے ایسی سیاسی کامیابی حاصل کی ہے کہ اس نے بھارت کا سیاسی نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا اور ساتھ ہی اپنی کامیابی کو کانگریس کی بدترین شکست بھی بنا دیا۔