بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بھارت کو ’کھلی جگہ پر رفع حاجت سے پاک‘ ملک قرار دینے والے ہیں مگر ماہرین انگشت بدنداں ہیں کہ ملک کی 1.3 ارب آبادی کو بیت الخلاء تک رسائی حاصل بھی ہے؟
اشتہار
مودی نے 'لیٹرین فار آل‘ کا نعرہ تب لگایا تھا جب وہ 2014ء میں پہلی مرتبہ ملکی وزیر اعظم بنے، اور آج دو اکتوبر کو جب بھارت اپنی آزادی کے ہیرو مہاتما گاندھی کی 150ویں سالگرہ منا رہا ہے تو مودی اپنے اس منصوبے کی کامیابی کا دعویٰ کرنے والے ہیں اور صفائی کے چیمپیئن قرار پانے والے ہیں۔
مودی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے اقتدار میں آنے کے بعد سے قریب 100 ملین یعنی دس کروڑ ٹوائلٹ تعمیر کیے ہیں جس پر عالمی سطح پر ان کی پذیرائی بھی ہوئی اور بِل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن نے انہیں گزشتہ ہفتے اسی حوالے سے ایک ایوارڈ بھی دیا ہے۔
رواں برس مارچ میں بھارتی حکومت نے بتایا تھا کہ اُس وقت ملک بھر میں قریب 50 ملین افراد کو لیٹرین کی سہولت حاصل نہیں تھی اور وہ کھلے مقامات پر رفع حاجت کر رہے تھے۔ یہ تعداد 2014ء کے مقابلے میں 550 ملین کم تھی اور اسی وقت 550,000 دیہات کو کھلی جگہ پر رفع حاجت سے پاک قرار دیا گیا تھا۔
تاہم ماہرین ان حکومتی دعووں کے بارے میں شکوک وشبہات کا شکار ہیں کیونکہ دیہی اور شہری علاقوں سے متعلق اعداد وشمار اس سے مطابقت نہیں رکھتے۔
بھارت کے 'ریسرچ انسٹیٹیوٹ فار کمپیشیونیٹ اکنامکس‘ (RICE) سے تعلق رکھنے والی سنگیتا ویاس کے مطابق، ''2014ء سے 2018ء کے درمیان بہت زیادہ تعداد میں لیٹرین تعمیر کیے گئے ہیں۔ اور لیٹرین کی ملکیت بھی 35 فیصد سے بڑھ کر 70 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔‘‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے ویاس کا مزید کہنا تھا، ''یہ اضافہ کھلی جگہ پر رفع حاجت میں کافی کمی کا سبب بنا ہے لیکن دسمبر 2018ء کے اندازوں کے مطابق بہار، مدھیہ پردیش، اتر پردیش اور راجھستان ریاستوں میں قریب نصف لوگ کھلی جگہوں پر ہی رفع حاجت کر رہے تھے۔‘‘ انہیں اس بات پر شبہ ہے کہ اس کے بعد سے صورتحال میں کوئی بڑی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔
ماہرین کے مطابق نئے تعمیر کردہ زیادہ تر پاخانے پانی کے کنکشن کے بغیر ہیں اور جب انہیں پانی فراہم کر بھی دیا جاتا ہے تو ثقافتی مسائل کے سبب بہت سے لوگ انہیں استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
69 سالہ نریندر مودی یہ عظیم اعلان ملک کی مغربی اور اپنی آبائی ریاست گجرات میں آج بدھ دو اگست کی شام کو قریب 20 ہزار دیہات کے سربراہوں کے سامنے کرنے والے ہیں۔
آج صبح کے وقت مودی نے نئی دہلی کے راج گھاٹ میموریل پر بھارت کی تحریک آزادی کے عظیم رہنما مہاتما گاندھی کو خراج عقیدت پیش کیا۔ گاندھی کو برصغیر کی تقسیم کے ایک برس بعد قتل کر دیا گیا تھا۔
ماہواری سے جڑی فرسودہ روایات
ایک بھارتی مندر میں تین خواتین کے داخل ہو جانے پر بڑا فساد ہوا۔ ان خواتین نے کئی صدیوں پرانی پابندی جو توڑ دی تھی۔ حیض کی عمر تک پہنچ جانے والی خواتین کو دنیا کے دیگر کئی ممالک اور خطوں میں بھی امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔
تصویر: Fotolia/Alliance
عبادت نہ کرو
براعظم ایشیا کے کئی حصوں میں دوران حیض خواتین کو عبادت اور دیگر مذہبی رسومات میں شرکت سے استثنا حاصل ہے۔ ہندوستان کے علاوہ چین اور جاپان کی بودھ کمیونٹی کے افراد بھی یہی تصور کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں مسلمان خواتین بھی پیریڈز کے دوران نہ تو مسجد جا سکتی ہیں اور نہ ہی دیگر مذہبی سرگرمیاں سر انجام دے سکتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
کھانا نہیں پکانا
دنیا کے کئی حصوں میں خیال کیا جاتا ہے کہ خاتون کو اس حالت میں کھانا نہیں پکانا چاہیے۔ بھارت کے کئی علاقوں میں یہ تاثر ہے کہ اگر کوئی خاتون دوران حیض اچار کو چھو لے گی تو وہ خراب ہو جائے گا۔ کچھ معاشروں میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ماہواری کے دوران خواتین مکھن، کریم یا مایونیز جما سکتی ہیں۔ کچھ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر کسی خاتون نے حالت حیض میں آٹے کو چھو لیا تو وہ ٹھیک طریقے سے پکے کا نہیں۔
تصویر: Reuters
گھر بدر
انڈونیشیا کے کچھ حصوں کے ساتھ ساتھ بھارت، نیپال اور نائجیریا کے کچھ قبائل بھی حیض کو ’ناپاک‘ تصور کرتے ہیں۔ یہ خواتین کو ایام مخصوصہ کے دوران گھر سے نکال دیتے ہیں اور عمومی طور پر ان بچیوں اور خواتین کو ماہواری کے دن جانوروں کے لیے بنائی گئی جگہوں پر گزارنا ہوتے ہیں۔ حالیہ عرصے میں نیپال میں کئی خواتین موسم سرما کے دوران گھر بدر کیے جانے کے باعث ہلاک بھی ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Mathema
نہانا نہیں ہے
بھارت سے لے کر اسرائیل اور کئی یورپی اور جنوبی امریکی ممالک میں کہا جاتا ہے کہ خواتین کو دوران حیض نہانا نہیں چاہیے اور بال بھی نہیں دھونا چاہییں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ یوں خواتین بانجھ ہو جائیں گی یا بیمار۔ ان خطوں میں پیریڈز کے دوران خواتین کسی سوئمنگ پول یا ساحل سمندر پر غوطہ بھی نہیں لگا سکتیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/C. Khanna
بنو سنورو مت
’خواتین پیریڈز کے دوران بالوں کو نہ تو کاٹیں اور نہ ہی رنگیں یا سنواریں‘۔ کچھ کا یہ خیال بھی ہے کہ اگر خواتین حالت حیض میں جسم کے بال صاف کریں گی تو وہ دوبارہ زیادہ تیزی سے بڑے ہو جائیں گے۔ کچھ خواتین کو تو ناخن تراشنے یا رنگنے کی بھی ممانعت ہوتی ہے۔ وینزویلا میں مبینہ طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی خاتون دوران حیض ’بیکنی لائن‘ سے بالوں کو صاف کریں گی تو ان کی جلد کالی اور خراب ہو جائے گی۔
تصویر: Fotolia/davidevison
پودوں سے دور رہو
کچھ معاشروں میں کہا جاتا ہے کہ دوران حیض خواتین کو پودوں اور پھولوں کے قریب نہیں جانا چاہیے اور کھیتوں سے دور رہنا چاہیے۔ ان فرسودہ روایات کے مطابق اگر یہ خواتین حالت حیض میں نباتات کو چھو لیں گی تو وہ سوکھ یا مر جائیں گی۔ بھارت میں ایسی خواتین کو کہا جاتا ہے کہ وہ مقدس پھولوں کو نہ تو چھوئیں اور ہی پانی دیں۔
تصویر: DW/S. Tanha
مردوں سے دوری
دنیا کے متعدد قدامت پسند خطوں میں پیریڈز کے دوران مردوں کے ساتھ رابطوں کو ممنوع قرار دیا جاتا ہے۔ آتھوڈکس یہودی مذہب میں خواتین کا حالت حیض میں مردوں سے جنسی رابطہ ممنوع ہے۔ پیریڈز ختم ہونے کے بعد یہ خواتین روایتی طور پر نہاتی ہیں اور اس کے بعد ہی یہ سیکس کر سکتی ہیں۔ پولینڈ اور روانڈا کے کچھ حصوں میں یہ کہا جاتا ہے کہ دوران حیض کسی خاتون سے جماع مرد کی ہلاکت کا باعث ہو سکتا ہے۔
کچھ فرسودہ عقائد کے مطابق پیریڈز کے دوران ورزش یا کھیل خاتون کے جسم کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ سن دو ہزار سولہ میں چینی خاتون اسٹار پیراک فو یوناہی نے آشکار کیا تھا کہ انہوں نے حالت حیض میں ریو اولمپک مقابلوں میں حصہ لیا تھا۔ اس بات نے چین میں ایک اہم شجر ممنوعہ توڑ دیا تھا اور یہ پیشرفت ایک نئی بحث کا باعث بن گئی تھی۔
تصویر: Fotolia/Brocreative
ٹیمپون استعمال نہ کرو
دنیا کے قدامت پسند ممالک اور خطوں میں پیریڈز کے دوران ٹیمپون کے استعمال کا درست خیال نہیں کیا جاتا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے استعمال سے خاتون کا پردہ بکارت پھٹ سکتا ہے، جو ان ممالک یا خطوں میں انتہائی شرمندگی کا باعث سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان اور بھارت سمیت کئی قدامت پسند ممالک میں پیریڈز کے دوران ٹیمپون کے ساتھ ساتھ سینیٹری پیڈز کا استعمال بھی متنازعہ خیال کیا جاتا ہے۔