گذشتہ ایک دہائی میں ارب پتیوں کی تعداد دو گنا: آکسفیم
20 جنوری 2020
غیر حکومتی ادارہ آکسفیم کے مطابق گذشتہ ایک دہائی میں دنیا بھر میں ارب پتیوں کی تعداد دو گنا ہوگئی ہے۔ یہ ارب پتی دنیا کی ساٹھ فیصد آبادی کی مجموعی دولت سے بھی زیادہ امارت رکھتے ہیں۔
اشتہار
ڈاووس میں ہونے والی ورلڈ اکنامک فورم کی سالانہ میٹنگ سے قبل آکسفیم نے اپنی جاری کردہ رپورٹ میں دنیا بھر میں امیروں اور غریبوں کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کو اجاگر کیا ہے۔ اس رپورٹ کا عنوان ”ٹائم ٹو کیئر" موزوں کیا گیا ہے۔
آکسفیم نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں اقتصادی عدم مساوات میں اضافہ ہوا ہے اور غریب خواتین اور لڑکیوں کی حالت سب سے زیادہ خراب ہے۔ رپورٹ کے مطابق، ''خواتین ہر روز ساڑھے بارہ بلین گھنٹے بلا اجرت کام کرتی ہیں اور ان گھنٹوں کی سالانہ اجرت کم از کم 10.8 ٹریلین ڈالر بنتی ہے۔‘‘
رپورٹ میں خواتین جو کام کرتی ہیں ان میں گھریلو کام کاج اور خاندان کا خیال رکھنا شامل کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ” دنیا بھر میں 42 فیصد خواتین کو ملازمت نہیں ملتی ہے کیوں کہ وہ دیکھ بھال کے کام میں لگی رہتی ہیں جب کہ مردوں میں یہ تعداد صرف چھ فیصد ہے۔"
آکسفیم انڈیا کے سربراہ امیتابھ بیہرکے مطابق''ہماری ٹوٹتی ہوئی معیشتیں عام مردوں اور عورتوں کی قیمت پر ارب پتیوں اور بڑے کاروباریوں کی جیبیں بھر رہی ہیں۔ کوئی حیرت نہیں کہ لوگ اب سوال کرنے لگے ہیں کہ ارب پتیوں کا وجود ہونا بھی چاہئے۔"
ڈاووس میں ورلڈ اکنامک فورم میں آکسفیم کی نمائندگی کرنے والے بیہر کہتے ہیں ”امیروں اور غریبوں کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کو اس وقت تک ختم نہیں کیا جا سکتا جب تک عدم مساوات کو ختم کرنے والی پالیسیاں نہیں بنائی جاتیں۔"
حیرت انگیز اعدادو شمار
آکسفیم نے جو رپورٹ جاری کی ہے اس میں کئی حیرت انگیز اعدادوشمار ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ” دنیا کے 22 امیر ترین لوگوں کے پاس افریقہ کے تمام ممالک کی خواتین کے مقابلے میں زیادہ دولت ہے۔" رپورٹ میں کہا گیا ہے اگر دنیا کے امیر ترین ایک فیصد افراد بھی دس برسوں تک اپنی جائیداد پر 0.5 فیصد اضافی ٹیکس ادا کردیتے ہیں تو یہ عکر رسیدہ افراد، بچوں کی دیکھ بھال، تعلیم اور صحت کے شعبے میں 11.7 کروڑ نئے روزگار پیدا کرنے کے لیے ضروری سرمایہ کاری کے برابر ہوگا۔
آکسفیم کے یہ اعدادو شمار فوربز میگزین اور سوئس بینک کریڈٹ سوئسی کی رپورٹوں پر مبنی ہیں تاہم بعض ماہرین اقتصادیات اس سے اختلاف کرتے ہیں۔ اعدادو شمار کے مطابق دنیا کے 2153 ارب پتیوں کے پاس اس سرزمین پر رہنے والی مجموعی آبادی کے 60 فیصد یعنی 4.6 ارب لوگوں کے مقابلے زیادہ دولت ہے۔
ج ا/ ع ح (اے ایف پی)
جمہوریت اور آزادی کے لیے دنیا بھر میں ہونے والے احتجاج
2019ء کے دوران دنیا کے مختلف حصوں میں لوگ بدعنوانی، غربت، معاشرتی عدم مساوات، نسلی امتیاز اور تحفظ ماحول کے لیے سڑکوں پر نکلے۔ تبدیلی لانے کی شدید خواہش دنیا بھر میں لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑ رہی ہے۔
تصویر: Reuters/M. Casarez
ہیٹی: ’ہمارے ساتھ انسانوں جیسا سلوک نہیں کیا جاتا‘
ہیٹی میں گزشتہ کئی مہینوں سے احتجاج کے دوران مظاہرین صدر جوونیل موئیز سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہیٹی کی حکومت کو بدعنوانی کے متعدد الزامات کا سامنا ہے۔ عام شہریوں کو ہسپتالوں اور تعلیم و تربیت تک رسائی نہ ہونے کے ساتھ ساتھ کم خوراکی جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ سیاسی اشرافیہ کے خلاف عوامی غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ہیٹی مغربی کرہ کا غریب ترین ملک ہے۔
تصویر: Reuters/V. Baeriswyl
چلی: ناانصافی کے خلاف مزید برداشت نہیں‘
اکتوبر کے آخر سے چلی میں مظاہرے جاری ہیں۔ مظاہرین اصلاحات اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ ان مظاہروں کے دوران اکثر ہلاکتوں اور انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Silva
بھارت: ’قانون، جو ملک کو تقسیم کر سکتا ہے‘
پھل فروش محمد انس قریشی بھارت میں شہریت کے متنازعہ ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج میں شریک ہیں۔ یہ قانون تین ممالک سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی مہاجرین کی بھارتی شہریت کے حصول کو آسان بناتا ہے۔ تاہم شرط یہ ہے کہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے یہ مہاجرین مسلمان نہ ہوں۔ ان مظاہروں میں اب تک بیس سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
عراق: آخری دم تک ساتھ دینے کا وعدہ‘
عراق میں اکتوبر سے بدعنوانی اور ایران نواز حکومت کے خلاف جاری مظاہروں میں چھیاسٹھ سالہ ام مہدی بھی شریک ہیں۔ اب تک ان مظاہروں میں ساڑھے چار سو سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔ وزیر اعظم عبدل عادل مہدی کا استعفی بھی اس احتجاج کی شدت کو کم نہیں کر سکا۔ مظاہرین سیاسی نظام میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. al-Sudani
ایران: ’اقتصادی صورتحال انتہائی خراب‘
نومبر میں دو ہفتوں تک جاری رہنے والے مظاہروں کے دوران ایران میں کم از کم پندرہ سو افراد کے ہلاک ہونے کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ احتجاج میں شریک یہ شخص اپنی شناخت مخفی رکھتے ہوئے گولیوں کے خول ہاتھ میں لیے ہوئے ہے۔ یہ مظاہرے پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف شروع ہوئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/SalamPix
ہانگ کانگ : ’حکومت ہمارے مطالبے تسلیم کرے‘
ہانگ کانگ میں احتجاج میں شریک یہ دونوں خود کو لبرٹی گرل اور لٹل برادر کہتے ہیں۔ چین کا خصوصی انتظامی علاقہ ہانگ کانگ آج کل شدید ترین سیاسی بحران کا شکار ہے۔ چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف یہ مظاہرےجون سے جاری ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
فرانس: ’صرف امیروں کا تحفظ‘
دیدیئر بیلاک فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کی تجویز کردہ اصلاحات کے خلاف مظاہروں میں شریک ہیں۔ اس احتجاج اور ہڑتال کی وجہ سے ٹرینوں اور میٹرو کی آمد و رفت خاص طور پر متاثر ہوئی ہے۔ ابھی تک اس بحران کا کوئی حل دکھائی نہیں دے رہا۔ گزشتہ برس موسم سرما میں بھی ’زرد جیکٹ‘ نامی احتجاج کے دوران ماکروں کے اصلاحاتی ایجنڈے پر شدید تنقید کی جا چکی ہے۔
تصویر: Reuters/B. Tessier
بولیویا: ’حکومت ہمارے وطن کو فروخت کر رہی ہے‘
ریویرا زمپانو نے مستعفی ہونے والے ملکی صدر ایوو مورالیس کے دیگرحامیوں کے ساتھ مل کر سڑک کی ناکہ بندی کی تھی۔ مورالیس کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال اور دہشت گردی کے الزامات عائد کیے جانے کے خلاف کئی ہفتوں تک مظاہرے کیے گئے تھے۔ تاہم ان مظاہرین کے برعکس زمپانو کا موقف ہے کہ بولیویا کی عبوری حکومت ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔
تصویر: Reuters/M. Bello
کولمبیا:’ انقلاب کے بعد ہی تبدیلی‘
اندریس فیلیپے نے دسمبر کے اوائل میں ملکی سربراہ مملکت ایوان دوکے کے خلاف ہونے میں مظاہروں میں شرکت کی۔ مظاہرین سماجی شعبے میں منصفانہ پالیسیوں، تعلیم و تربیت کے لیے مزید رقم مختص کرنے اور صحت کے بہتر نظام کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے لیے سرگرم افراد کے بہتر تحفظ کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ان کا ایک مطالبہ سابقہ فارک باغیوں کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے پر مکمل طور پر عمل درآمد بھی تھا۔
تصویر: Reuters/L. Gonzalez
لبنان:’ گزشتہ تیس برسوں سے یہ ہمیں لوٹ رہے ہیں‘
اکتوبر سے لبنان میں گاہے بگاہے مظاہرے دیکھے گئے ہیں۔ یہ لوگ بدعنوانی اور غلط اقتصادی پالیسیوں کے خلاف سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہوئے۔ وزیر اعظم سعد الحریری کے مستعفی ہونے کے بعد بھی حبا غوسن جیسے شہری نئے نامزد کردہ حکومتی سربراہ حسن دیاب کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ حسن دیاب کو شیعہ تنظیم حزب اللہ کی حمایت حاصل ہے۔