1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گراؤنڈز کی کمی، کرکٹ سڑکوں اور گلیوں میں

دانش بابر، پشاور4 اپریل 2014

ملک کے دیگر صوبوں کی طرح خیبر پختون خواہ کے نوجوان اور بچے بھی کھیل کے میدان نہ ہونے کے با عث سڑکوں، ریلوئے لائنز اور فٹ پاتھ پر کھیلتے نظر آتے ہیں۔

Pakistan Cricket
تصویر: Danish Baber

پشاور کے ایک تنگ گلی میں محمد عثمان اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کرکٹ کھیل رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ یہاں مجبوراﹰ کھیل رہے ہیں کیونکہ ان کے علاقے میں کوئی بھی کھیل کا میدان نہیں ہے۔ اس علاقے میں پہلے تلاونو نامی ایک گراؤنڈ ہوا کرتا تھا لیکن اب وہاں ایک کالونی بن چکی ہے اور بچوں کے لیے گراؤنڈ محلے کی گلیاں بن چکی ہیں۔ عثمان کہتے ہیں کہ یہاں کھیلنے کے دوران محلے والوں کی طرف سے ان کو اکثر ڈانٹ بھی پڑ جاتی ہے، ’’اگر ہمارے لئے کوئی کھیلنے کا گراؤنڈ ہوتا تو ہمارے یہاں پر(سڑک پر) کھیلنے کی وجہ سے لوگوں کے گھروں کے شیشے نہ ٹوٹتے اور نہ ہی عام لوگوں کو گیندیں لگتی، ہم لوگ بھی وہاں آرام کے ساتھ کھیلتے اور لوگوں کو بھی کوئی تکلیف نہ ہوتی۔“

تصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images

اسی علاقے کے رہائشی اکرام اللہ کا کہنا ہے کہ جب ان کے بچے باہر سڑکوں پر کھیلنے نکلتے ہیں تو ان کو بچوں کے واپسی تک خوف لاحق ہوتا ہے، کیونکہ رواں دواں ٹریفک میں بچوں کے سڑک اور ریلوے لائنز پر کھیلنے سے، وہ کسی بھی بڑے حادثے کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اکرام اللہ مزید کہتے ہیں کہ نہ تو اسکولوں میں کھیلنے کے لیے میدان ہیں اور نہ ہی غریب لوگوں کے گھروں میں جگہ ہوتی ہے۔ گلی محلوں کے نزدیک ہر کھلی جگہ مارکیٹ اور پلازوں میں تبدیل ہوچکی ہے، اگر حالات ایسے ہی رہے تو بچوں اور نوجوانوں میں صحت کے مسائل بڑھنے کے ساتھ ساتھ، وہ منفی سرگرمیوں کی طرف بھی مائل ہو سکتے ہیں۔

دوسری طرف تحریک انصاف کی صوبائی صدر اعظم سواتی نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کو اس بات کا احساس ہے اور نوجوان کو، جو ملک کا سرمایہ ہیں، گراؤنڈز، صحت مند اور تفریحی سرگرمیوں کی ضرورت ہے۔

تصویر: Bay Ismoyo/AFP/Getty Images

ان کے مطابق صوبائی حکومت کوشش کر رہی ہے کہ نوجوانوں کے لئے کھیل کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کیے جائیں۔ اپنی پارٹی کے مستقبل کے لائحے عمل کے بارے میں ان کا مزید کہنا تھا، ”ہم نے ہر تحصیل میں ایک بڑا گراؤنڈ یا اسٹیڈیم کی تعمیرکا عندیہ دیا ہے اور یہ کام ابھی شروع ہونے والا ہے یا شروع ہو چکا ہے۔“

دوسری طرف خیبر پختونخوا ہ کے صوبائی سیکریٹری برائے کھیل اور امور نوجوانان احمد حسن نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ صوبائی حکومت نے صوبے میں انقلابی تبدیلی لانے کے لئے عملی اقدامات اٹھائیں ہیں اور خصوصاً نوجوانوں میں تعمیری سرگرمیوں کو پروان چڑھانے کے لئے کھیلوں کے شعبے کو خصوصی اہمیت دی ہے۔ ان کے مطابق اس سلسلے میں صوبے بھر کے تقریباﹰ 36 تحصیلوں میں رواں سال تک مختلف کھیلوں کے لئے میدان بنائے جارہے ہیں، جس سے ناصرف نوجوانوں کی حوصلہ افزائی ہوگی بلکہ ان کو ملک کا نام روشن کرنے کا موقع بھی ملے گا،

”ہمارے بچوں کو ان کے دہلیز پر کھیلوں کی سہولتیں میسر ہوں گی اور اس سے وہ منفی سرگرمیوں کے بجائے مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب ہوں گے۔“

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ان میدانوں میں ہر قسم کے لوگوں کا داخلہ فری ہوگا،کسی قسم کی روک تھام نہیں ہوگی اور نوجوان ہر قسم کے کھیلوں سے لطف اندوز ہو سکیں گے۔

یہ حکومتی دعوے اپنی جگہ لیکن آج کی حقیقت یہ ہے کہ عثمان اور اس جیسے لاکھوں پاکستانی بچے کھیل کے میدانوں کی کمی کی وجہ سے سڑکوں اور گلیوں میں کھیلنے پر مجبور ہیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں