گراؤنڈ زیرو پر مسجد کی تعمیرکا متنازعہ منصوبہ
22 جولائی 2010شاید ہی دنیا کا کوئی مذہب ہو جس کی نمائندگی کرنے والے نیویارک میں نظر نہیں آتے۔ اس شہر کی انتظامیہ مذہبی رواداری پر غیر معمولی زور دیتی ہے۔ تاہم نیویارک کے علاقے من ہیٹن میں گراؤنڈ زیرو کے نزدیک ایک مسجد کی تعمیر کا منصوبہ شدید نزاع کا باعث بن گیا ہے۔
امریکیوں کے لئے گراؤنڈ زیرو ایک مقدس مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔ جہاں گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ٹوئن ٹاورز پر مسلم انتہا پسندوں نے دو ہوائی جہازوں سے حملہ کیا تھا۔ یہ دہشتگردانہ واقعہ تقریباً 3 ہزار انسانوں کی ہلاکت کا باعث بنا تھا۔ گراؤنڈ زیرو پر ایک مسجد تعمیر کرنے کے منصوبے کے بارے میں سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک قدامت پسند امریکی بلاگر ’پامیلا گیلر‘ نے کہا کو اُن کے خیال میں گورستان اور مقدس مقامات اور مرنے والوں کی تعظیم ضروری ہے۔ ان کے بقول’ایک ایسی جگہ پر 13 منزلہ مسجد کی عمارت تعمیر کرنا، جہاں امریکی تاریخ کا سب سے بڑا واقعہ پیش آیا تھا، نہایت بے حسی کا مظاہرہ ہے‘۔
اس 13 منزلہ بڑی مسجد کی تعمیر کا منصوبہ مین ہیٹن کے کمیونٹی بورڈ کی طرف سے منظور ہو چکا ہے۔ دراصل یہ پراجیکٹ محض ایک مسجد کی تعمیر تک محدود نہیں ہے، بلکہ ایک ایسے اسلامی کلچرل سینٹر کے قیام کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے جس میں مسلمانوں اور مسیحیوں کو ایک دوسرے کے قریب آنے اور براہ راست بات چیت کے مواقعے میسر ہوں گے۔ منصوبے کے مطابق یہ سینٹرگراؤنڈ زیرو کے نزدیکی پارک میں اس جگہ تعمیر کیا جانا ہے جو 150 سال قدیم اطالوی احیائے ثانیہ کی علامت سمجھا جانے والا اسکوائر ہے۔ اس مذہبی مرکز کی تعمیر پر 100 ملین ڈالر کے اخراجات آئیں گے۔ اس جگہ موجود عمارت کو منہدم کر کہ یہ سینٹر ینایا جائے گا تاہم اس کی تعمیر کے کاموں کی ذمہ دار کمپنی کے سربراہ شریف الجمال کا، جو کہ اس زمین کے مالک بھی ہیں، کہنا ہے کہ اس پورے مرکز کا تعمیراتی ڈھانچہ ایک بہت بڑی مسجد کی شکل کا ہوگا۔ انہوں نے کہا ہے کہ اس معاملے کو اشتعال انگیز بنانے میں میڈیا کا ہاتھ ہے۔ اُن کے بقول ’امریکہ میں اسلام کے بارے میں بہت زیادہ لا علمی پائی جاتی ہے اوریہ اعتدال پسند مسلمانوں کی آواز ہے۔‘
اُدھر اس منصوبے کے مخالفین نے نیو یارک کے ’لینڈ مارکس پریزرویشن کمیشن‘ یا امتیازی نشانات کو محفوظ کرنے والے کمیشن کے آگے یہ کیس پیش کردیا ہے۔ مسجد کی تعمیر کے منصوبے کے خلاف سخت مذاحمت دیکھنے میں آ رہی ہے تاہم فیصلہ ’لینڈ مارکس پریزرویشن کمیشن‘ ہی کرے گا۔ اس کمیشن کے زیر اہتمام حال ہی میں منعقد ہونے والے ایک اجلاس کے دوران مخالفین میں شامل ایک خاتون نے کہا ’مسجد کی تعمیر کا یہ منصوبہ دراصل دہشت گردی کی یادگار کی تعمیر کا منصوبہ ہے۔ میرا خیال ہے ایک قدیم عمارت کو گرا کر اُس کی جگہ ایک مسجد تعمیر کرنا ایک بہت بڑی غلطی ہوگی‘۔ اس کے جواب میں اس اجلاس میں موجود ایک مسلمان خاتون دانیا درویش نے شرکاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’ اگر اس جگہ ایک مسجد قائم ہو جاتی ہے تو شاید آپ سب کو یہ پتا چل سکے کہ دین اسلام ہے کیا‘۔ دانیا ہیڈ اسکارف لیتی ہیں اور گیارہ ستمبر کے دہشت گردانہ حملوں میں اُن کا ایک بھائی بھی جاں بحق ہوا تھا۔ وہ آگ بجھانے والے عملے کے لئے کام کرتا تھا اور ٹوئن ٹاورز کی تباہی میں اُس کی بھی جان گئی۔
’لینڈ مارکس پریزرویشن کمیشن‘ کے اجلاس میں شامل ایک عرب نژاد امریکی باشندہ رفیق کاٹھواری بھی موجود تھا۔ اس نے اپنا امریکی پاسپورٹ ہوا میں لہراتے ہوئے کہا ’ مجھے آج امریکی باشندہ ہونے پر شرم محسوس ہو رہی ہے۔ میری پوری فیملی گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کے واقعے میں ہلاک ہوگئی تھی اور آج تم سب مل کر ہمیں غصہ دکھا رہے ہو‘۔
نیو یارک سٹی کے میئر مائیکل بلوم برگ نے، جن کا دفتر پارک پلیس سے چند قدم کے فاصلے پرہے، مسجد کی تعمیر کے منصوبے کی حمایت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے ’ امریکہ اور نیو یارک رواداری کی علامت ہے۔ انتظامیہ اس بات کی مجاز نہیں کہ وہ اپنے شہریوں کو بتائے کہ وہ کہاں اور کیسے عبادت کریں۔ میرا خیال ہے کہ یہ تمام دنیا کے لئے ایک بہت بڑا پیغام ہے‘۔
دریں اثناء ’مسلم امریکن سوسائٹیز فریڈم فاؤنڈیشن‘ کے سرکردہ ابراہیم رامے نے سی این این کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا’ مسلمانوں کو امریکی معاشرے میں بھرپور کردار ادا کرنے کا حق حاصل ہونا چاہئے‘۔
گراؤنڈ زیرو پر مسجد اور مذہبی سینٹر کی تعمیر کا فیصلہ سال رواں میں ہی ’لینڈ مارکس پریزرویشن کمیشن‘ کی طرف سے متوقع ہے۔
رپورٹ : کِشور مُصطفیٰ
ادارت : افسر اعوان