گرامین فون حکومت کو بیس ارب ٹکہ ادا کرے، سپریم کورٹ کا فیصلہ
24 نومبر 2019ڈھاکا سے ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق بنگلہ دیشی سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ سنا کر کم از کم فی الحال اس طویل قانونی جنگ کو ختم کر دیا ہے، جو بنگلہ دیش ٹیلی کمیونیکیشن ریگولیٹری کمیشن (BTRC) اور گرامین فون کے مابین برسوں سے جاری تھی۔
گرامین فون ناروے کے کئی ممالک میں کاروبار کرنے والے ٹیلی کوم گروپ ٹیلینور (Telenor) کی بنگلہ دیش میں کام کرنے والی ایک ذیلی مقامی موبائل فون کمپنی ہے۔
اس کمپنی کے وکیل مہدی حسن چوہدری نے آج اتوار چوبیس نومبر کو ڈھاکا میں صحافیوں کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق گرامین فون کو ٹیلی کوم کمیشن کو 20 ارب ٹکہ کی یہ رقم آئندہ تین ماہ میں ادا کرنا ہو گی۔ یہ فیصلہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے ججوں کے ایک کئی رکنی پینل نے سنایا۔ اس مقدمے میں بی آر ٹی سی کا دعویٰ تھا کہ گرامین بینک کے ذمے مجموعی طور پر 125.8 بلین ٹکہ (1.48 بلین امریکی ڈالر) کی رقوم تھیں، جو اسے اس کمیشن کو اپنی آمدنی، ٹیکسوں اور لیٹ فیس کی مد میں اد اکرنا تھیں لیکن گرامین فون نے یہ ادائیگیاں نہیں کی تھیں۔
اس دعوے کے برعکس گرامین فون کا کہنا تھا کہ اس کے ذمے ان رقوم کی ادائیگی واجب ہی نہیں ہے۔ بنگلہ دیش ٹیلی کمیونیکیشن ریگولیٹری کمیشن کے مطابق اس نے ٹیلینور کی اس بنگلہ دیشی ذیلی کمپنی کے خلاف ان ادائیگیوں کی مالیت کا حساب اس آڈٹ کی بنیاد پر لگایا تھا، جو 1997ء سے لے کر 2014ء تک کے دوران کیا گیا تھا۔
بنگلہ دیش کے نصف موبائل فون صارفین گرامین فون کے گاہک
بنگلہ دیش میں ٹیلی کوم کی ملکی منڈی میں اس مقدمے اور اس سے جڑے مالیاتی تنازعے کی اہمیت اس لیے بھی بہت زیادہ تھی کہ اس جنوبی ایشیائی ملک میں موبائل فون صارفین کی کُل تعداد تقریباﹰ 164 ملین بنتی ہے اور ان میں سے آدھے گرامین فون کے صارفین ہیں۔
گرامین فون نامی کمپنی اس مقدمے کو لے کر عدالت میں اس وقت گئی تھی جب ملکی ٹیلی کوم ریگولیٹرز نے اس کی طرف سے عدالت سے باہر تصفیے کی مالی پیشکش مسترد کر دی تھی۔ اب سپریم کورٹ نے گرامین فون کو بی ٹی آر سی کو جن رقوم کی ادائیگی کا حکم دیا ہے، ان کی مالیت ان رقوم کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ بنتی ہے، جن کا ملکی ریگولیٹرز مطالبہ کر رہے تھے۔
گرامین فون کے قانونی مشیر کے مطابق ممکن ہے کہ یہ کمپنی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر دے۔ دوسری طرف ریاستی دفتر استغاثہ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ شاید اس تنازعے میں کوئی حتمی عدالتی حکم ثابت نہ ہو، لیکن اس کی وجہ سے اربوں ڈالر مالیت کے اس جھگڑے کے کسی حتمی تصفیے تک اب جلد پہنچا جا سکے گا۔
م م / ع ح (ڈی پی اے)