1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تاريخپاکستان

گردوارہ ٹبہ صاحب، ڈھلتا سورج بس ڈوبنے ہی لگا ہے!

6 جنوری 2023

پاکستانی پنجاب کے پاکپتن شہر سے آپ ڈھلتے سورج کی انگلی تھام لیجیے اور ریل کی پٹڑی کے ساتھ ساتھ جلتے جائیے۔ چار کلومیٹر کی دوری پر ’ٹبہ نانک سر‘ کی چھوٹی سی بستی آتی ہے۔

تصویر: privat

کہتے ہیں اسی جگہ پر سکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک اور مشہور صوفی بزرگ بابا فرید الدین گنج شکر کے گدی نشین شیخ ابراہیم کی ملاقات ہوئی تھی۔ اسی ملاقات میں بابا فرید کے شعر گرو نانک تک پہنچے اور بعد میں وہ اشلوک اسی چھوٹی بستی سے نکلے اور سکھوں کی مقدس کتاب گرنتھ صاحب میں جا کر دم لیا۔ اس گاؤں میں ایک چھوٹا سا نارنجی رنگ کا گردوارہ اسی تاریخی واقعے کی یاد دلا رہا ہے۔ 

ڈھلتا سورج افق کی کھائی میں گر کر کہیں ڈوب ہی نا جائے۔ لہذا اس کی دھوپ اوڑھ کر چلتے جائیے۔ پکا سدھار اور چک عظمت نام کے دیہاتوں سے گزر کر چک داتار سنگھ میں آ جائیے۔ 

سورج کو ڈھلنے دیجیے، بس ذرا سی دیر ٹھہریے۔ وہ سامنے ریل کے پٹڑی کنارے، نیم کے پیڑوں کے عقب میں دودھیا سی عمارت، جو نظر آ رہی ہے، یہ ریلوے اسٹیشن ہے۔ دس پندرہ برس پہلے تک اس کے ماتھے پہ لکھا تھا  ''داتار سنگھ ریلوے اسٹیشن‘‘۔ پھر اس پہ سفیدی پھیر کر نام بدل دیا گیا اور اب لکھا ہے  ''مراد چشتی‘‘۔ 

یہ وہی داتار سنگھ تھے، جو ولایت سے زراعت اور ڈیری فارمنگ کی تعلیم لے کر پلٹے تو منٹگمری (ساہیوال-پاکستان) میں متحدہ ہندوستان کا پہلا ڈیری فارم قائم کیا۔ عمدہ نسل کی گائے اور بھینسوں کی بریڈنگ کی اور انگریز سرکار نے ان کو سر کا خطاب بھی دیا۔ 

یہ وہی داتار سنگھ ہیں، جو ہندوستان کی سابق وزیراعظم اندرا گاندھی کی بہو مانیکا گاندھی کے نانا تھے۔ 

دہلی کے قریب ''پنجاب کھور‘‘ گاؤں میں داتار سنگھ کے پوتے نے بھی ڈیری فارم بنا رکھا ہے اور اس کا نام رکھا ہے ''منٹگمری ڈیری فارم‘‘۔ بیتے دنوں کی یادیں مٹتے مٹتے ہی مٹتی ہیں۔

ارے سورج تو کافی آگے نکل گیا، جانے دیجیے، اسے ڈوبنا ہی ہے۔ 

آپ چک داتار سنگھ سے دائیں سمت جاتی سڑک پر چلتے جائیں۔ چار پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر مٹی کا ایک قدیم ٹبہ (ٹیلا) ہے، بہت بڑا۔ اس پہ قبرستان آباد ہے اور مٹی کے ٹوٹے برتنوں کے ٹکڑے اور ٹھیکریاں جا بجا بکھری ہوئی ہیں۔ اسی ٹبے کے ساتھ ایک گاؤں ہے، اسے بھی ''ٹبہ‘‘ کہتے ہیں۔ 

ٹبہ گاؤں میں ایک دل کش اور حسیں دو منزلہ عمارت موجود ہے، جس کا گنبد دور سے ہی دکھائی دے رہا ہے۔ کبھی اسے ''گردوارہ ٹبہ صاحب‘‘ کہا جاتا تھا۔ یہ گردوارہ یہاں آنے والے ہر بندے کو کئی داستانیں سنا رہا ہے، چپکے چپکے، بولے بنا۔ 

تقسیم ہند سے قبل پاک پتن شہر اور آس پاس کی بستیوں میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے ساتھ ساتھ سکھوں کی بھی خاصی تعداد آباد تھی۔ زیادہ تر سکھ خاندان کھیتی باڑی سے منسلک تھے۔ 

یہ گردوارہ ٹبہ صاحب اس علاقے میں آباد سکھوں کے لیے ایک اہم اور مقدس مقام ہوا کرتا تھا، جہاں سینکڑوں کی تعداد میں سکھ زائرین ماتھا ٹیکنے آتے تھے۔ 

سن سنتالیس سے پہلے اس عالی شان گردوارے پر خوب چہل پہل ہوتی ہو گی۔ زائرین دھارمک جذبات سے لبریز پاٹھ پڑھتے ہوں گے۔ من میں بسی نا آسودہ آرزوؤں کا پورا ہونے کی منت مانگتے ہوں گے۔ ماتھا ٹیک کر جیون کی کٹھن راہوں کو گل زار بنانے کی آشائیں روشن کرتے ہوں گے۔ سنسار کی تاریک گلیوں میں نور بھرنے کی تمنا لیے اس گردوارے پہ آ کر دیپ جلاتے ہوں گے۔

زندگی کے سبھی دکھ درد، پریشانیاں آنکھوں کے راستے آنسوؤں کا روپ دھار کر چھلک جاتے ہوں گے۔ سروور (تالاب) میں نہاتے ہوں گے۔ ہاتھ، منہ پاؤں دھو کر، پاک صاف ہو کر گردوارے میں آتے ہوں گے۔ سنگتیں یہاں موجود کمروں میں قیام کرتی ہوں گی۔ پرشاد پکتا ہو گا اور جھولی بھر بھر بٹتا ہو گا۔ 

بزرگ بتاتے ہیں کہ گردوارہ ٹبہ صاحب پر سالانہ میلا لگتا تھا، جس میں سکھوں کے ساتھ ساتھ مسلمان اور ہندو بھی شریک ہوتے تھے۔ لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ جاذب نظر اور دل موہ لینی والی عمارت کا حامل گردوارہ محبت، پیار، باہمی تعاون اور امن کی بھی علامت ہے۔ 

پھر سنتالیس کا سال آیا۔ دیس تقسیم ہو کر دو دیسوں میں بٹ گیا۔ یہاں پر بسنے والے ہندوؤں اور سکھوں کو گھر بار چھوڑ کر سرحد پار جانا پڑا۔ سرحد کے مغرب میں بسنے والے سب ہندو اور سکھ اپنی جنم بھومی پہ بیٹھے بٹھائے پردیسی ہو گئے۔ جیسے سرحد کے مشرق میں بستے سب مسلمان پل بھر میں اپنے ہی گھروں، گاؤں اور شہروں میں رہتے بستے ہوئے بھی اجنبی اور پرائے ہو گئے۔ 

نئے دیس کو جانے والے اپنا سب کچھ پیچھے چھوڑ گئے۔ زمین، کھیتی، کھلیان، مال مویشی، حویلیاں، مندر، گردوارے سب پڑے رہ گئے۔ بس جانوں کے لالے پڑ گئے۔ یہ گردوارہ بھی یہیں رہ گیا۔ یوں اچانک ویران ہونے پہ حیراں اور تنہا رہ جانے پر پریشاں۔

یہاں صرف مسلمان باقی رہ گئے۔ گردوارے میں ماتھا ٹیکنے والے نا رہے، پرشاد بانٹنے والے پردیسی ہو گئے، سروور میں نہانے والے ہمیشہ کے لیے چلے گئے۔ 

ایک دم یہ گردوارہ ویران ہو گیا۔ اس کی اہمیت اور تقدس پلک جھپکنے میں کسی اور دیس کے مسافر ہو گئے، جیسے سورج کی انگلی چھوٹی اور وہ پل بھر میں ڈوب گیا۔ 

گردوارہ ٹبہ صاحب کے در و دیوار پہ گُرمکھی میں لکھے اشلوک پڑھنے والا بھی اب کوئی نہیں یہاں۔ اب گردوارے میں سرحد پار آیا مسلمان خاندان بستا ہے۔ گردوارے کے کمروں میں ان کی پیٹیاں، چارپائیاں، موڑھے، صندوق اور دیگر سامان پڑا ہے۔ نشان صاحب پر ٹوٹے گھڑے اوندھے پڑے ہیں۔ لنگر ہال میں دو چار بکریاں بندھی ہیں اور میمنے منمنا رہے ہیں۔ سروور کی سیڑھیوں پر گوبر کی تھاپیاں قطار در قطار تھپی ہوئی ہیں۔ سروور کے اندر سرسوں کے پیلے پھول لہرا رہے ہیں۔ 

گردوارہ ٹبہ صاحب ہر گزرتے دن کے ساتھ مٹی ہو رہا ہے۔ 

گر مکھی میں لکھے الفاظ مٹ رہے ہیں، دیواروں کا رنگ پاپڑیاں بن کر ریزہ ریزہ اتر رہا ہے۔ ڈھلتا سورج بس ڈوبنے ہی لگا ہے۔ سنہری دھوپ بس پل دو پل کی مہمان ہے اور رخت سفر باندھ رہی ہے۔ تالاب میں اگے سرسوں کے پھول بھی دو چار دنوں کا سنہرا جوبن جی کر نا جانے کیوں مرجھا جائیں گے اور شاخوں سے ٹوٹ کر مٹی میں مٹی ہو جائیں گے۔

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

احمد نعیم چشتی انگریزی ادب کے استاد ہیں۔ اپنے علاقے میں بزرگوں کی 1947ء کی یادیں اکٹھی کرنے میں دلچسپپی رکھتے ہیں۔
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں