گرمی سے دریائی پانی بھی گرم، ایٹمی بجلی گھر کی بندش کا فیصلہ
مقبول ملک
25 جولائی 2019
جرمنی میں شدید گرمی کے نتیجے میں دریائی پانی بہت گرم ہو جانے کے باعث حکام کو ایک بڑے ایٹمی بجلی گھر کی عارضی بندش کا فیصلہ کرنا پڑ گیا ہے۔ کئی مغربی یورپی ممالک کو ان دنوں ریکارڈ حد تک گرمی کی ایک مسلسل لہر کا سامنا ہے۔
اشتہار
روایتی طور پر موسم گرما میں بھی کافی کم درجہ حرارت کا سامنا کرنے والے جن متعدد مغربی یورپی ممالک میں ان دنوں گرمی کی شدید لہر پائی جاتی ہے، ان میں سے جرمنی، فرانس، بیلجیم اور ہالینڈ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اس سال اب تک ان ممالک میں زیادہ سے زیادہ گرمی کے کئی سابقہ ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں۔
فرانس میں درجہ حرارت 42 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی زیادہ دیکھا گیا جب کہ جرمنی میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 40.5 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔ شدید گرمی کی یہ لہر آج جمعرات 25 جولائی کو بھی جاری رہے گی اور فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں تو آج گرمی کا 70 برس پرانا ریکارڈ ٹوٹ جانے کا بھی خدشہ ہے۔
ان حالات میں شمالی جرمن صوبے لوئر سیکسنی میں ہامَیلن نامی شہر کے نواح میں واقع گروہنڈے (Grohnde) کے ایٹمی بجلی گھر کی منتظم کمپنی نے فیصلہ کیا ہے کہ یہ جوہری بجلی گھر چند روز کے لیے احتیاطی طور پر بند کر دیا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ نیوکلیئر پاور پلانٹ جرمنی کے ویزر (Weser) نامی جس دریا کے کنارے واقع ہے، اس کے پانی کا درجہ حرارت شدید گرمی کی وجہ سے بہت زیادہ ہو گیا ہے۔
روایتی اور جوہری ذرائع سے بجلی پیدا کرنے والے، جرمنی میں توانائی کےشعبے کے ایک بہت بڑے ادارے E.ON کے نیوکلیئر پاور ڈیپارٹمنٹ 'پروئسن الیکٹرا‘ نے کہا ہے کہ گروہنڈے کا ایٹمی بجلی گھر کل جمعہ 26 جولائی سے لے کر اتوار 28 جولائی تک بند رکھا جائے گا۔
اس ایٹمی بجلی گھر کی انتظامیہ کی طرف سے جمعرات 25 جولائی کو بتایا گیا، ''دریائے ویزر کے پانی کا درجہ حرارت کافی زیادہ ہو چکا ہے۔ اور ہم قانونی طور پر اس امر کے پابند ہیں کہ اگر قریبی دریا میں پانی کا ٹمپریچر 26 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ ہو جائے، تو یہ نیوکلیئر ری ایکٹر احتیاطی طور پر بند کر دیا جائے۔‘‘
جرمنی میں گزشتہ کئی عشروں سے بہت سے ایٹمی بجلی گھر کام کر رہے ہیں اور گروہنڈے کے نیوکلیئر پاور پلانٹ سے حاصل ہونے والی بجلی کی مقدار اوسطاﹰ 1,430 میگاواٹ بنتی ہے۔ یہ جوہری بجلی گھر گزشتہ 37 برسوں سے زیر استعمال ہے اور طے شدہ پروگرام کے مطابق اسے 2021ء کے آخر میں حتمی طور پر بند کر دیا جائے گا۔ اس بجلی گھر کے ارد گرد 10 کلومیٹر کے علاقے میں مختلف دیہات اور چھوٹے چھوٹے قصبوں میں رہنے والے باشندوں کی کل آبادی تقریباﹰ 80 ہزار بنتی ہے۔
فوکوشمیا:چھ سال بعد بھی تابکاری
گیارہ مارچ 2011ء کے فوکوشیما جوہری حادثے کی وجہ سے بہت سے انسانوں کو تباہ کن نتائج کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان میں جاپانی شہری اور جوہری صنعت سے منسلک کچھ افراد شامل ہیں۔ کیا اب بھی اس پُر خطر ٹیکنالوجی کا کوئی مستقبل ہے؟
تصویر: UN Photo/IAEA/Greg Webb
فوکوشیما : جوہری بم سے زیادہ تابکاری
مارچ 2011ء: زلزلے اور سونامی کے بعد فوکوشیما کے جوہری مرکز میں حادثے کے باعث خارج ہونے والی تابکاری کی مقدار ہیروشیما پر گرائے جانے والے ایٹم بم سے پانچ سو گنا زیادہ تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa/Abc Tv
بھاری لاگت ، بے پناہ تابکاری
اس آفت سے بہت بڑے پیمانے پر نقصان ہوا۔ جاپانی حکومت کے مطابق اس حادثے کی وجہ سے 21.5 ارب ین ( 177 ارب یورو ) کے اخراجات آئے جب کہ انسانوں کی تکلیف اور دیگر ممالک تک پہنچنے والی تابکاری کے نقصانات اس سے علیحدہ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
بحرالکاہل ابھی تک آلودہ
زلزلے اور سونامی کی وجہ سے فوکوشیما جوہری مرکز کے کولنگ نظام کو بہت شدید نقصان پہنچا تھا جس کے بعد سے مختلف ری ایکٹروں سے تابکاری کا اخراج شروع ہوا۔ اس دوران جوہری مرکز کے نیچے موجود پانی بھی آلودہ ہو گیا۔ اس میں پانی کی کچھ مقدار کو تو پمپوں کے ذریعے نکال لیا گیا تاہم اس آلودہ پانی کا کچھ حصہ بحرالکاہل میں بہہ گیا۔
تصویر: Getty Images/C. Furlong
تھائی رائیڈ یا غدود کے سرطان میں اضافہ
جاپان کی ایک طرح سے خوش قسمتی تھی کہ فوکوشیما حادثے کے فوری بعد چلنے والی تیز ہوائیں تابکاری کو سمندر کی جانب لے گئیں۔ اس کی وجہ سے ٹوکیو کے ارد گرد رہنے والے پچاس ملین شہری اس آفت سے محفوظ رہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق تاہم اس واقعے کے بعد تھائی رائیڈ کے سرطان میں مبتلا ہونے والے بچوں کی تعداد بیس گنا بڑھ گئی ہے۔
تصویر: Reuters
اکثریت جوہری ٹیکنالوجی کے خلاف
اس حادثے کے قبل جاپان میں 54 جوہری ری ایکٹرز کام کر رہے تھے اور آج فعال ری ایکٹرز کی تعداد صرف دو ہے۔ تاہم حکومت جوہری توانائی کے استعمال کے اپنے ارادوں پر قائم ہے اور چند ری ایکٹرز کو دوبارہ سے استعمال میں لانے کے منصوبے بنا رہی ہے۔ ٹوکیو حکام کے ان منصوبوں کی راہ میں متاثرہ علاقوں کے شہری ابھی تک کامیابی کے ساتھ رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
تصویر: REUTERS
جوہری صنعت بھی بحران کا شکار
فوکوشیما سانحے کے بعد جوہری صنعت کو شدید نقصان پہنچا، جو مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ جاپان، امریکا اور فرانس میں جوہری کمپنیاں خسارے کا شکار ہیں۔ نئی جوہری پلانٹس خریدے نہیں جا رہے اور تعمیر کے نئے منصوبے بھی پس و پیش کا شکار ہیں۔
تصویر: Reuters
جوہری پلانٹس ’مفت‘
ایک وقت تھا جب جوہری مراکز کی تعمیر ایک منافع بخش کاروبار تھا۔ اس دوران زیادہ تر مراکز پرانے ہو چکے ہیں، ان کی حالت مخدوش ہے، انہیں فوری طور پر مرمت کی ضرورت ہے اور یہ خسارے کا بھی شکار ہیں۔ اس صورتحال میں سوئٹزرلینڈ کا جوہری ادارہ ’آلپگ‘ اپنے تینتس اور اڑتیس سالہ دو پرانے مراکز توانائی کی ایک فرانسیسی کمپنی کو تحفتاً دینے کی پیش کش کی۔ تاہم فرانسیسی کمپنی نے یہ پیش کش مسترد کر دی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Seeger
جوہری حادثوں سے خوف
یورپی یونین اور سوئٹزرلینڈ میں آج کل 132جوہری مراکز کام کر رہے ہیں۔ ایک جوہری مرکز تیس سے پینتیس سال تک کارآمد رہ سکتا ہے۔ اب یہ جوہری مراکز اوسطاً بتیس سال کے ہو چکے ہیں۔ اس دوران ان میں خرابیوں، مرمت اور چھوٹے موٹے حادثوں کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔ تاہم اس دوران عوام کی ایک بڑی تعداد کسی بڑے حادثے سے قبل ان جوہری مراکز کو بند کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
تصویر: DW/G. Rueter
چین کا جوہری توانائی پر انحصار
یورپی یونین، جاپان اور روس جہاں نئے جوہری مراکز تعمیر نہیں کر رہے وہیں چین جوہری توانائی پر اپنا انحصار بڑھا رہا ہے۔ چین کوئلے سے توانائی کے حصول کو ترک کرتے ہوئے جوہری توانائی استعمال کرنے کے اپنے منصوبوں پر قائم ہے۔ تاہم اس دوران بیجنگ حکومت نے قابل تجدید ذرائع سے توانائی کے حصول کے مختلف منصوبوں میں بھی بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے۔