گلوبل وارمنگ کے انسانی صحت پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں 128 سائنسدانوں کی ایک رپورٹ نے چونکا دینے والے انکشافات کیے ہیں۔ رپورٹ میں ماحولیاتی حدت کے صحت اور عالمی معیشت پر پڑنے والے سنگین اثرات کی تفصیلات شامل ہیں۔
عراق کے جنوبی صوبے ذی قار میں واقع چبائش کے دلدلی علاقے شدید خشک سالی کے باعث پانی کے پیچھے ہٹنے سے خشک ہو گئے ہیں۔ عراق کی 4 کروڑ 60 لاکھ آبادی بڑھتے درجہ حرارت، مستقل پانی کی قلت اور سال بہ سال خشک سالی جیسے ماحولیاتی بحرانوں کا سامنا کر رہی ہے۔تصویر: Asaad Niazi/AFP
اشتہار
دل کے دورے، گرمی سے تھکن، بے خوابی، دماغی صحت کے مسائل اور بیماریوں میں اضافہ: موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والی صورتحال دنیا بھر میں لوگوں کی صحت کے لیے خطرہ بن رہی ہے۔ سائنس دانوں کے اندازوں کے مطابق ہر سال اوسطاً نصف ملین سے زیادہ لوگ شدید موسم کے بالواسطہ یا بلاواسطہ نتائج کے سبب مر جاتے ہیں۔
128 سائنس دانوں اور مصنفین نے آج شائع ہونے والی لینسٹ کاؤنٹ ڈاؤنرپورٹ کے ذریعے متنبہ کیا ہے کہ گلوبل وارمنگ، شدید گرمی، خشک سالی اور دیگر شدید موسمی حالات سے پیدا ہونے والی صورتحال کے نتائج کبھی اتنے خطرناک نہیں رہے جتنے کہ اب ہیں۔
اس رپورٹ کو گلوبل وارمنگ اور صحت پر پڑنے والے اثرات کا اندازہ لگانے والے پیمانے یا ایک معیار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
آئس لینڈ کے گلیشئرز کا غیر معمولی پگھلاؤ
01:36
This browser does not support the video element.
اگر فوسل فیول سے پیدا ہونے والی فضائی آلودگی سے ہونے والی اموات کی تعداد پر غور کیا جائے تو یہ سالانہ 20 لاکھ سے زیادہ بنتی ہیں۔ افریقی ممالک، جنوب مشرقی ایشیا اور لاطینی امریکہ خاص طور پر فضائی آلودگی سے متاثرہ علاقے ہیں۔
مارینا رومانیلو، ایگزیکٹیو ڈائریکٹر برائے لینسٹ کاؤنٹ ڈاؤن کالج لندن یونیورسٹی میں گلوبل ہیلتھ ریسرچ کی معاون ہیں، ان کا کہنا ہے، ''فوسل ایندھن پر مسلسل انحصار، موسمیاتی تبدیلیوں کو کم کرنے میں ہماری طرف سے ہونے والی تاخیر اور ناگزیر موسمیاتی تبدیلیوں کے مطابق ڈھالنے میں ہماری ہچکچاہٹ کی وجہ سے ہم ہر سال لاکھوں اموات ہو رہی ہیں۔‘‘
گرین لینڈ میں ماحولیاتی تبدیلی کے گہرے اثرات سامنے آ رہے ہیں، جہاں گلیشیئرز اور برفانی چادر سمٹتی جا رہی ہے۔تصویر: Ulrik Pedersen/NurPhoto/picture alliance
مارینا کا مزید کہنا تھا، ''سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ تقریباً تمام انڈیکیٹرز کے ٹرینڈز غلط سمت میں بڑھتے دکھائے دے رہے ہیں۔ شہریوں کی زیادہ ''سک لیوز‘‘ یا بیماری کے سبب کام پر زیادہ غیر حاضری ملکی معیشت اور آمدنی کو بھی متاثر کرتی ہے۔‘‘
پانی یا خوراک کی کمی، خشک سالی،سیلاب، یا شدید گرمی حفظان صحت کے تباہ کن حالات انسانی جانوں کے ساتھ ساتھ سینکڑوں بلین امریکی ڈالر سالانہ کے نقصان کا سبب بن رہے ہیں۔ صرف شدید گرمی سے 2024ء تک بیماری اور غیر حاضری کی وجہ سے کام کے نقصان سے ہونے والے نقصانات ایک بلین ڈالر سے زیادہ رہا۔ اس کے علاوہ، 2024ء میں شدید موسمی واقعات نے 304 بلین امریکی ڈالر کا معاشی نقصان پہنچایا، جو گزشتہ دس سالوں میں تقریباً 60 فیصد کا اضافہ ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے دس حیرت انگیز اثرات
’گلوبل وارمنگ‘ دنیا بھر میں موسموں پر کیسے اثر انداز ہو رہی ہے، زیادہ تر باتوں سے تو ہم واقف ہیں۔ لیکن موسمیاتی تبدیلی کے کچھ اثرات ایسے بھی ہیں جو ہمارے طرز زندگی کو حیرت انگیز طور پر تبدیل کر دیں گے۔
ہوائی سفر میں بڑھتے ہچکولے
ایک تازہ تحقیق کے مطابق مستقبل قریب میں ہوائی جہاز میں سفر کرنا پہلے سے زیادہ پریشان کن ہو جائے گا۔ تحقیق کے مطابق دوران پرواز ہوائی جہازوں کو ماضی کے مقابلے میں ڈیڑھ سو فیصد زیادہ ’ایئر ٹربولینس‘ کا سامنا کرنا پڑے گا یعنی شدید ہچکولے لگا کریں گے۔
تصویر: Colourbox/M. Gann
بحری جہاز اور برفیلی چٹانیں
ہوائی جہازوں کے علاوہ بحری جہازوں کو بھی نقل و حرکت میں مشکلات پیش آئیں گی۔ سن 1912 میں ٹائیٹینک جہاز برفیلی چٹان سے ٹکرانے کے بعد ڈوبا تھا لیکن اس کے بعد ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث مستقبل قریب میں ایسے حادثے دوبارہ پیش آ سکتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Raedle
آسمانی بجلی گرنے کی تعداد میں اضافہ
عالمی حدت میں اضافے کے باعث طوفان باد و باراں اور آسمانی بجلی گرنے کے واقعات میں بھی اضافہ ہو گا۔ آسمانی بجلی گرنے سے جنگلات میں آگ لگنے کے علاوہ بھی کئی نقصانات ہیں۔ لیکن ماہرین کے مطابق اس کے باعث پیدا ہونے والی نائٹروجن آکسائیڈ گیس دنیا کو دوسری زیریلی گیسوں سے محفوظ بھی رکھتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
لاوا اگلتے آتش فشاں
دنیا میں بے تحاشا عجائبات ہیں مثلاﹰ آئس لینڈ میں ہزاروں برسوں سے آتش فشاں اور گلیشیئر بیک وقت ایک ہی جگہ موجود ہیں۔ عالمی حدت کے باعث گلیشیئر پگھل رہے ہیں۔ زمین پر ہوا کا دباؤ بھی کم ہو رہا ہے جس کے نتیجے میں آتش فشانوں میں لاوا بڑھتا جا رہا ہے۔ اگلے برسوں کے دوران دنیا بھر میں آتش فشاں زیادہ لاوا اگلیں گے جس سے ہوائی جہازوں کی پروازیں متاثر ہونے کے امکانات بھی بڑھ جائیں گے۔
تصویر: Getty Images/S. Crespo
ہم ناراض تر ہوتے جائیں گے
موسمیاتی تبدیلی ہمارے مزاجوں پر بھی بری طرح اثر انداز ہو رہی ہے۔ محققین کے مطابق عالمی حدت میں اضافے کے باعث انسان زیادہ غصیلے ہو جائیں گے اور تشدد میں بھی اضافہ ہو گا۔ سماجی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑھتا ہوا غصہ عالمی سطح پر مسلح تنازعات کی شکل اختیار کر جائے گا۔
تصویر: Fotolia/Nicole Effinger
سمندر بھی تاریک تر
سائنسدانوں کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سمندر کی گہرائیوں میں بھی نمایاں ہوں گے۔ بدلتا موسم دنیا بھر میں زیادہ بارشیں لائے گا، دریاؤں میں تغیانی بھی بڑھے گی اور سیلاب کے باعث زمینی کٹاؤ بھی بڑھے گا۔ کیچڑ زدہ دریا اس پانی کو سمندر تک پہنچائیں گے جس کے باعث سمندر تاریک ہو جائیں گے۔ محققین کے مطابق یہ عوامل اب نمایاں ہوتے جا رہے ہیں۔
تصویر: imago/OceanPhoto
الرجی بھی بڑھے گی
بڑھتے غصے سے آپ اگر پریشان نہیں ہیں تو طرح طرح کی الرجی آپ کو ضرور پریشان کرے گی اور اگر بہار کے موسم میں آپ کو الرجی کا مرض لاحق ہوتا ہے تو ابھی سے تیار ہو جائیے۔ آئندہ الرجی کا کوئی ایک موسم نہیں ہو گا۔
تصویر: Colourbox
چھوٹے ہوتے جانور
عالمی حدت میں جتنا اضافہ ہوتا جائے گا، جانوروں کے قد بھی چھوٹے ہوتے جائیں گے لیکن ظاہر ہے ایسا فوری طور پر تو نہیں ہو گا، بلکہ یہ ایک بتدریج عمل ہے۔ پچاس ملین برس پہلے جانوروں کا سائز موجودہ وقت کی نسبت کہیں بڑا تھا۔ لیکن عالمی حدت میں اضافے کے ساتھ ساتھ ان کی قد وقامت کم ہونے کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔
تصویر: Fotolia/khmel
صحراؤں میں کھلتے پھول
صحراؤں میں پھول کھلیں گے، اور یہ کوئی شاعرانہ بات نہیں ہے، موسمیاتی تبدیلیاں دنیا بھر کے صحراؤں پر بھی یوں اثر انداز ہوں گی کہ آئندہ صحرا بھی بنجر اور ویران نہیں رہیں گے بلکہ وہاں گھاس بھی اگے گی اور پھول بھی کھلیں گے۔
تصویر: picture-alliance/Zuma Press/B. Wick
چیونٹیوں کی بدلتی عادات
آپ شاید یقین نہ کریں لیکن کرہ ارض کے ایکو سسٹم میں چیونٹیاں نہایت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ مگر موسمیاتی تبدیلی اور عالمی حدت اس ننھی مخلوق کے مزاج پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔ ایک تحقیقی مطالعے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ حدت میں معمولی اضافہ بھی چیونٹیوں کی عادات بدل دیتا ہے اور وہ موافق درجہ حرارت ملنے تک زیر زمین ہی رہتی ہیں۔
تصویر: CC BY-SA 4.0/Hans Hillewaert
10 تصاویر1 | 10
رومانیلو کے مطابق دنیا بھر میں متاثرہ افراد میں سے زیادہ تر کی ہیلتھ انشورنس نہیں ہوتی، جس کے باعث ان کے لیے نتائج اور بھی ڈرامائی ہوتے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی اور دماغی صحت
امریکہ میں قائم غیر سرکاری تنظیم گلوبل کلائمیٹ اینڈ ہیلتھ سے منسلک ماہر جینی ملر گلوبل وارمنگ کے نفسیاتی نتائج کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ''جب کسی کو شدید موسم کا سامنا کرنا پڑتا ہے، چاہے وہ جنگل کی آگ ہو، شدید سمندری طوفان، مون سون، ٹائفون، یا شدید سیلاب، یہ پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر کا باعث بن سکتا ہے۔‘‘
اشتہار
خدیجہ بی (دائیں جانب)، جن کے بیٹے شیخ لطیف شیرو نے مالی قرضوں کے بوجھ کے باعث خودکشی کر لی، بھارت کی ریاست مہاراشٹر کے ضلع بیڑ کے موچی پمپلگاؤں میں اپنے کھیت پر درخت کے سائے تلے اہلِ خانہ کے ساتھ بیٹھی ہیں۔تصویر: Indranil Mukherjee/AFP
موسمیاتی تبدیلی سے دماغی امراض کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ خشک سالی، پانی کی قلت اور بے روزگاری کی وجہ سے فصلوں کا نقصان اور بدلتی ہوئی معاشی صورتحال دماغی صحت کے مسائل کا سبب بن سکتی ہے۔ مذکورہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بہت زیادہ گرم راتوں کی وجہ سے نیند کی کمی صحت کے مسائل کو بڑھا سکتی ہے۔
2023ء شدید موسمیاتی تبدیلیوں کا خطرہ
02:47
This browser does not support the video element.
گرین انرجی اور صحت کا موافق نظام
اس رپورٹ کے مصنفین آب و ہوا کے بحران سے صحت پر پڑنے والے اثرات کو کم کرنے کے لیے تین اہم اقدامات پر زور دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے، گلوبل وارمنگ کو سست کرنے کے لیے قابل تجدید توانائی کو بڑھایا جانا چاہیے۔
دوسرے، موسمیاتی تبدیلیوں سے ہم آہنگ ہونے کے لیے اقدامات فوری طور پر کیے جائیں۔ اس میں رہائشی عمارتوں اور بنیادی عوامی ڈھانچے کو انتہائی حالات کے لیے موزوں بنانا بھی شامل ہے۔ اس سے لوگوں کے لیے براہ راست نتائج اور خطرات کو جزوی طور پر کم کیا جا سکتا ہے۔