1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جب موسم بیماریاں لانے لگیں

کشور مصطفیٰ (ٹم شاؤنبرگ)
2 نومبر 2025

گلوبل وارمنگ کے انسانی صحت پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں 128 سائنسدانوں کی ایک رپورٹ نے چونکا دینے والے انکشافات کیے ہیں۔ رپورٹ میں ماحولیاتی حدت کے صحت اور عالمی معیشت پر پڑنے والے سنگین اثرات کی تفصیلات شامل ہیں۔

 شدید خشک سالی  کا شکار عراق کے جنوبی صوبے ذی قار میں واقع چبائش کا دلدلی علاقہ
عراق کے جنوبی صوبے ذی قار میں واقع چبائش کے دلدلی علاقے شدید خشک سالی کے باعث پانی کے پیچھے ہٹنے سے خشک ہو گئے ہیں۔ عراق کی 4 کروڑ 60 لاکھ آبادی بڑھتے درجہ حرارت، مستقل پانی کی قلت اور سال بہ سال خشک سالی جیسے ماحولیاتی بحرانوں کا سامنا کر رہی ہے۔تصویر: Asaad Niazi/AFP

دل کے دورے، گرمی سے تھکن، بے خوابی، دماغی صحت کے مسائل اور بیماریوں میں اضافہ: موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والی صورتحال دنیا بھر میں لوگوں کی صحت کے لیے خطرہ بن رہی ہے۔ سائنس دانوں کے اندازوں کے مطابق ہر سال اوسطاً نصف ملین سے زیادہ لوگ شدید موسم کے بالواسطہ یا بلاواسطہ نتائج کے سبب مر جاتے ہیں۔

128 سائنس دانوں اور مصنفین نے آج شائع ہونے والی لینسٹ کاؤنٹ ڈاؤنرپورٹ کے ذریعے متنبہ کیا ہے کہ گلوبل وارمنگ، شدید گرمی، خشک سالی اور دیگر شدید موسمی حالات سے پیدا ہونے والی صورتحال کے نتائج کبھی اتنے خطرناک نہیں رہے جتنے کہ اب ہیں۔

اس رپورٹ کو گلوبل وارمنگ اور صحت  پر پڑنے والے اثرات کا اندازہ لگانے والے پیمانے یا ایک معیار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

آئس لینڈ کے گلیشئرز کا غیر معمولی پگھلاؤ

01:36

This browser does not support the video element.

اگر فوسل فیول سے پیدا ہونے والی فضائی آلودگی سے ہونے والی اموات کی تعداد پر غور کیا جائے تو یہ سالانہ 20 لاکھ سے زیادہ بنتی ہیں۔ افریقی ممالک، جنوب مشرقی ایشیا اور لاطینی امریکہ خاص طور پر فضائی آلودگی سے متاثرہ علاقے ہیں۔

مارینا رومانیلو، ایگزیکٹیو ڈائریکٹر برائے لینسٹ کاؤنٹ ڈاؤن کالج لندن یونیورسٹی میں گلوبل ہیلتھ ریسرچ کی معاون ہیں، ان کا کہنا ہے، ''فوسل ایندھن پر مسلسل انحصار، موسمیاتی تبدیلیوں کو کم کرنے میں ہماری طرف سے ہونے والی  تاخیر اور ناگزیر موسمیاتی تبدیلیوں کے مطابق ڈھالنے میں ہماری ہچکچاہٹ کی وجہ سے ہم ہر سال لاکھوں اموات ہو رہی ہیں۔‘‘

گرین لینڈ میں ماحولیاتی تبدیلی کے گہرے اثرات سامنے آ رہے ہیں، جہاں گلیشیئرز اور برفانی چادر سمٹتی جا رہی ہے۔تصویر: Ulrik Pedersen/NurPhoto/picture alliance

مارینا کا مزید کہنا تھا، ''سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ تقریباً تمام انڈیکیٹرز کے ٹرینڈز غلط سمت میں بڑھتے دکھائے دے رہے ہیں۔ شہریوں کی زیادہ ''سک لیوز‘‘ یا بیماری کے سبب کام پر زیادہ غیر حاضری ملکی معیشت اور آمدنی کو بھی متاثر کرتی ہے۔‘‘

پانی یا خوراک کی کمی، خشک سالی،سیلاب، یا شدید گرمی حفظان صحت کے تباہ کن حالات انسانی جانوں کے ساتھ ساتھ سینکڑوں بلین امریکی ڈالر سالانہ کے نقصان کا سبب بن رہے ہیں۔ صرف شدید گرمی سے 2024ء تک بیماری اور غیر حاضری کی وجہ سے کام کے نقصان سے ہونے والے نقصانات ایک بلین ڈالر سے زیادہ رہا۔  اس کے علاوہ، 2024ء میں شدید موسمی واقعات نے 304 بلین امریکی ڈالر کا معاشی نقصان پہنچایا، جو گزشتہ دس سالوں میں تقریباً 60 فیصد کا اضافہ ہے۔

رومانیلو کے مطابق دنیا بھر میں متاثرہ افراد میں سے زیادہ تر کی ہیلتھ انشورنس نہیں ہوتی، جس کے باعث ان کے لیے نتائج اور بھی ڈرامائی ہوتے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی اور دماغی صحت

امریکہ میں قائم غیر سرکاری تنظیم گلوبل کلائمیٹ اینڈ ہیلتھ سے منسلک ماہر جینی ملر گلوبل وارمنگ کے نفسیاتی نتائج کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ''جب کسی کو شدید موسم کا سامنا کرنا پڑتا ہے، چاہے وہ جنگل کی آگ ہو، شدید سمندری طوفان، مون سون، ٹائفون، یا شدید سیلاب، یہ پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر کا باعث بن سکتا ہے۔‘‘

خدیجہ بی (دائیں جانب)، جن کے بیٹے شیخ لطیف شیرو نے مالی قرضوں کے بوجھ کے باعث خودکشی کر لی، بھارت کی ریاست مہاراشٹر کے ضلع بیڑ کے موچی پمپلگاؤں میں اپنے کھیت پر درخت کے سائے تلے اہلِ خانہ کے ساتھ بیٹھی ہیں۔تصویر: Indranil Mukherjee/AFP

موسمیاتی تبدیلی  سے دماغی امراض کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ خشک سالی، پانی کی قلت اور بے روزگاری کی وجہ سے فصلوں کا نقصان اور بدلتی ہوئی معاشی صورتحال دماغی صحت کے مسائل کا سبب بن سکتی ہے۔ مذکورہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بہت زیادہ گرم راتوں کی وجہ سے نیند کی کمی صحت کے مسائل کو بڑھا سکتی ہے۔

2023ء شدید موسمیاتی تبدیلیوں کا خطرہ

02:47

This browser does not support the video element.

گرین انرجی اور صحت کا موافق نظام

اس رپورٹ کے مصنفین آب و ہوا کے بحران سے صحت پر پڑنے والے اثرات کو کم کرنے کے لیے تین اہم اقدامات پر زور دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے، گلوبل وارمنگ کو سست کرنے کے لیے قابل تجدید توانائی کو بڑھایا جانا چاہیے۔

دوسرے، موسمیاتی تبدیلیوں سے ہم آہنگ ہونے کے لیے اقدامات فوری طور پر کیے جائیں۔ اس میں رہائشی عمارتوں اور بنیادی عوامی ڈھانچے کو انتہائی حالات کے لیے موزوں بنانا بھی شامل ہے۔ اس سے لوگوں کے لیے براہ راست نتائج اور خطرات کو جزوی طور پر کم کیا جا سکتا ہے۔

تیسرا، عالمی نظام صحت کو فوری طور پر اضافی چیلنجوں کے  مطابق ڈھالنے اور اس کے مطابق بنانے کی ضرورت ہے۔

(ٹم شاؤنبرگ) کشور مصطفیٰ

 

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں