1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گرونانک کی تعلیمات سندھ دھرتی تک کیسے پہنچیں؟

19 نومبر 2021

تہذیبیں کبھی خالص و جامد نہیں رہتیں یا مستقل وجود نہیں رکھتیں۔ وہ خود کو برقرار رکھنے کی کوشش میں مختلف نظریوں، ثقافتوں، فلسفوں، مذہبی بیانیوں کا ارتقائی چکر کاٹتی ہوئی آگے بڑھتی رہتی ہیں اور پروان چڑھتی رہتی ہیں۔

DW-Urdu Blogerin Saba Hussain
تصویر: Privat

 سندھ کے گاؤں بھادرو کی رہائشی ایک خاتون کا کئی مرتبہ حمل ضائع ہوا اور پھر اس کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا۔ اس خاتون نے اس خوشی میں مسلمان دائی کو اختیار دے دیا کہ وہ جو چاہے اس بچے کا نام رکھ دے۔ اس نے بچے کا نام خدا بخش رکھ دیا۔ لیکن ملک بدری نے مسلم دائی کے دیے ہوئے نام کو مٹا دیا اور اسے شیم بنا دیا گیا۔

تہذیبیں کبھی خالص و جامد یا مستقل وجود نہیں رکھتیں۔ وہ خود کو برقرار رکھنے کی کوشش میں مختلف نظریوں، ثقافتوں، فلسفوں، مذہبی بیانیوں کا ارتقائی چکر کاٹتی ہوئی آگے بڑھتی رہتی ہیں۔ ارتقا کے ایسے ہی ایک سفر کا نام گرو نانک ہے، جو کسی جستجو اور کھوج کی آگ بجھانے نکلے تھے۔ کچھ ہاتھ نہ آیا تو وحدت الوجود پر ایمان لے آئے۔

جنوبی سندھ کے ضلع تھرپارکر، عمرکوٹ اور ہمسایہ علاقوں کے علاوہ سندھ میں بسنے والے تمام تر ہندو 'نانک پنتھی‘ ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ دو صدی قبل کلہوڑو کے دور میں تھرپارکر کے علاقے سندھ کا حصہ بنے۔

نانک پنتھی ایک وسیع اصطلاح ہے، جو ان لوگوں کے لیے استعمال ہوتی ہے، جو گرونانک کی تعلیمات کے پیروکار ہوتے ہیں، چاہے وہ کسی بھی ثقافت، جغرافیہ اور رواجوں کے ماننے والے ہی کیوں نہ ہوں۔ وقت کے ساتھ سکھ ورثہ محدود ہوتا چلا گیا اور سکھ شناخت محض خالص سکھ تک محدود ہو گئی۔

تقسیم ہند کے بعد سندھ میں ایسے ورثوں کی باقیات آج بھی نظر آتی ہیں، جو لوگوں کو جوڑنے کی بات کرتے ہیں۔ ایسا ہی ایک ورثہ سندھ کے شہر ھالانی میں بھی موجود ہے۔ گرونانک کے یہ پیروکاراپنے آپ کو صوفی ہندو کہلانا پسند کرتے ہیں۔ یہ دربار 'بابا سروپ داس دربار‘  یا 'دربار صاحب ھالانی‘  کے نام سے جانا جاتا ہے۔

بابا سوخدیو صاحب نے اٹھارہویں صدی میں دربار صاحب ھالانی کی بنیاد رکھی تھی۔ میرسہراب خان تالپور نے دربار کی سرگرمیوں سے متاثر ہو کر کچھ ایکڑ زمین کا عطیہ دیا تاکہ اس کی پیداوار سے دربار کے انتظام انصرام کو برقرار رکھا جا سکے۔

ان زمینوں کو آج بھی مقامی لوگ 'مندر کی زمین‘  کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ بھی بتاتی چلوں کہ یہ دربار چاروں طرف سے بند ہے اور اس کی چاردیواری میں تیس گھر بھی آتے ہیں، جو دربار ہی کی ملکیت شمار ہوتے ہیں۔

جب تالپوروں نے کلہوڑو کو سندھ سے نکال باہر کیا اور میر فتح علی خان تالپور کی سندھ پرحکومت قائم ہوئی تو میر فتح علی خاں تالپور نے دربار صاحب ھالانی کی گدی کو چار گدیوں میں تقسیم کر دیا۔

تیسری گدی کا پہلا گدی نشین بابا سنترین صاحب اداسین پنتھی تھے اور برصغیرمیں ان کی شاعری اور اداسین ادب میں شہرت کی وجہ سے ھالانی مرکز کو مقبولیت ملی۔ یہ بھی بتاتی چلوں کہ تقسیم ہند کے بعد ایسا ہی ایک دربار راجستھان کے شہر اجمیر میں بھی قائم کیا گیا۔

آپ ضرور سوچ رہے ہوں گے کہ اداسین پنتھی کون ہوتے ہیں؟ اداسین دراصل قدیم سکھوں کا وہ ورثہ ہے، جو برھمچاری (جنسی پرہیز گار) ہوتے ہیں وہ عبادت کو اپنی زندگی کا اہم ترین مقصد اور دنیاوی معاملات سے لا تعلقی کا اظہار کرتے ہیں۔ اداسین پنتھوں کے عبادات کے طور طریقے ہندو مذہب کے زیادہ مشابہ ہیں۔

آپ یہ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ گرونانک کی تعلیمات سندھ دھرتی پہ کیسے پہنچیں؟ اس سوال کے کئی جواب ہیں۔ پہلا، تمام جنم سکھی میں گرونانک کی سندھ میں آمد کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

لیکن اس آمد کی کوئی تفصیلی بات نہیں کی گئی تاہم اس بات کا ذکر یوں کیا گیا ہے کہ گرونانک مرکزی ایشیاء کے سفر کے دوران شمالی سندھ میں شکارپور آئے اور اس کے بعد سندھ میں مزید آگے کی طرف بڑھے۔

یوں گرونانک کی تعلیمات کی سندھ میں پنپنا شروع ہوئیں۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ سندھ میں سکھ ورثہ اداسین پنتھوں کی وجہ سے پھیلا۔ بابا شری چند، جو کہ گرونانک کے بڑے بیٹے اور اداسین پنتھ کے بانی بھی تھے، نے ٹھٹہ کے ایک علاقے کا دورہ کیا۔

ان کی اس وقت کی یادگار کے طور پر آج بھی وہاں ایک دربار موجود ہے۔ ملکانی اپنی کتاب 'دی سندھ سٹوری‘ میں لکھتے ہیں کہ باوا گروپت صاحب، جو گرونانک کی بارہویں نسل میں سے تھے، کا سندھی معاشرے میں گرونانک کے فلسفے کو فروغ دینے میں اہم کردار ہے۔ وہ بھی ایک اداس پنتھی ہی تھے۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سندھ میں صوفی ورثہ تین مذاہب کے سنگم سے جنم لے رہا تھا: اسلام کے رحمدلانہ روپ، ہندو مذہب کا لچک دار پہلو اور گرونانک کا نرم اور خوش مزاج سکھ ورثہ۔  لیکن ایک ہی جھٹکے میں اس کے بچوں کو مختلف جہانوں میں بھیج دیا گیا۔

سندھ سے ہجرت کے بعد ہندوستان میں سندھ سے تعلق رکھنے والے ہندو اقلیت بن گئے۔ سندھی ہندو مذہب کے مخصوص طریقوں کو 'آدھ اسلامی‘ کے طور پر سمجھا اور جانا گیا۔ لہذا ان کی ہجرت کو بزدلانہ اور غیر ضروری قرار دے دیا گیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سندھی ہندوؤں کی شناخت ہندو نشنل ازم کے ساتھ منسلک ہو گئی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں