گریٹا تھنبرگ اپنا نام اور مہم ٹریڈ مارک کروانا چاہتی ہیں
30 جنوری 2020
ماحولیات کے لیے کام کرنے والی عالمی شہریت یافتہ طالبہ گریٹا تھنبرگ کا کہنا ہے کہ وہ اپنی مہم کو تجارتی مقاصد کے لیے استعمال ہونے سے بچانے کے لیے اپنے نام کے ساتھ ساتھ اپنی تحریک کو ٹریڈ مارک کروانا چاہتی ہیں۔
اشتہار
17 سالہ ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر اپنی مہم اور اس سے وابستہ سرگرمیوں کو ٹریڈ مارک کروانے کا اعلان کرتے ہوئے لکھا کہ اس کا مقصد ماحولیات سے متعلق مہم ’فرائیڈےفار فیوچر‘ کو تحفظ بخشنا ہے۔ انھوں نے اس تحریک کے لیے ملنے والی رقومات میں شفافیت برتنے کے لیے ایک ادارے کے قیام کی بات بھی کہی ہے۔ اس سے متعلق اپنی پوسٹ میں انھوں نے کہا کہ انھیں اور ان کے اسکول کے ساتھیوں کو ٹریڈ مارک کرانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، ’’لیکن بد قستمی سے ایسا کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
اس کے تحت گریٹا تھنبرگ کا نام، ماحولیات سے متعلق ان کی مہم ’فرائیڈے فار فیوچر‘ اور ان کے معروف نعرے ’سکول ستریک فار کلیماتا‘ کو ٹریڈ مارک کے طور پر درج کیا جائے گا۔ سویڈش زبان کے اس نعرے کا مطلب ہے کہ ماحولیات کے لیے اسکول کی اسٹرائیک۔ تھنبرگ مذکورہ نعرے کے ساتھ سویڈین کی پارلیمان کے باہر تنہا کھڑی ہوئی تھیں جس سے بہت سے دیگر ماحولیات کے کارکنان کو مہمیز ملی اور وہ اس مہم کا حصہ بنے۔
گریٹا تھنبرگ کا کہنا ہے کہ ان کے نام اور مہم کو ’’بغیر اجازت مسلسل تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر اسے مارکیٹنگ اور دیگر مصنوعات کی فروخت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور میرے نام اور مہم کے نام پر پیسہ جمع کیا جارہا ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’فرائیڈے فار فیوچر وہ بین الاقوامی تحریک ہے جس کی بنیاد میں نے رکھی ہے اور یہ ہر اس شخص کی ہے جو اس میں شامل ہو، خاص طور پر نوجوانوں کے لیے۔ ذاتی مفاد یا پھر تجارتی مقاصد کے لیے اس کا استعمال ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
گریٹا تھنبرگ کا کہنا ہے کہ وہ اور ان کے اہل خانہ مہم کو ملنے والی رقم کا شفافیت سے حساب کتاب رکھنے کے لیے ایک ادارہ قائم کرنے جارہے ہیں۔
طالبہ گریٹا تھنبرگ کا تعلق سویڈن سے ہے۔ انہیں پچھلے سال امریکی رسالے ’ٹائم میگزین‘ کی طرف سے سال 2019ء کی ’پرسن آف دی ایئر‘ کا اعزاز دیا گیا تھا۔ اسی ماہ انھوں نے سوئٹزرلینڈ کے شہر داووس میں عالمی اقصادی فورم میں دنیا کی سرکردہ کاروباری اور سیاسی شخصیات سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا کو درپیش سنگین ماحولیاتی خطرات کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کی ان کی کوششوں کے باوجود اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے عالمی سطح پر کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ماحول کی تباہی سے نمٹنے میں سائنس اور نئی نسل کی تشویش کو مرکزی حیثیت حاصل ہونا چاہیے۔
انسانوں کے ساتھ قدرت سے بھی پیار کیجیے
انڈونیشیا کے دارالحکومت میں ’ایکو اسلام‘ نامی دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کیا جا رہا ہے، جس میں پاکستانی نمائندے بھی شریک ہیں۔ یہ کانفرنس ڈی ڈبلیو اور واحد انسٹی ٹیوٹ کے تعاون سے منعقد کرائی جا رہی ہے۔
تصویر: DW/A. Tauqeer
ماحول دوست
’’ایکو اسلام کانفرنس‘ کا مقصد نہ صرف تحفظ ماحولیات سے متعلق اسلامی تعلیمات کو عام کرنا ہے بلکہ اسلام کے پرامن رخ کی آگاہی بھی ہے۔ یہ کانفرنس تیس تا اکتیس اکتوبر کو جکارتہ کے ایک مقامی ہوٹل میں منعقد کی جا رہی ہے۔
تصویر: DW/A. Tauqeer
بین الاقوامی کانفرنس
اس کانفرنس میں انڈونیشیا کے علاوہ پاکستان، بنگلہ دیش اور جرمنی سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شریک ہیں۔ ان میں ممتاز مذہنی رہنما، ماحول دوست کارکن اور میڈیا کے نمائندے بھی شامل ہیں۔
تصویر: DW/A. Tauqeer
انڈونیشیا میں تحفظ ماحولیات
اس کانفرنس کے آغاز پر اںڈونیشیا کی وزارت ماحولیات کی نمائندہ سیسلیا سولاستری نے ملکی سطح پر تحفظ ماحول کے لیے کیے جانے والے اقدامات پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ جکارتہ حکومت کس طرح کوشاں ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں قابو پانے کی خاطر اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔
تصویر: DW/A. Tauqeer
مختلف موضوعات
اس دو روزہ کانفرنس میں مختلف موضوعات پر گفتگو جاری ہے۔ ان موضوعات کا تعلق اسلام اور ماحولیات سے ہے۔ انڈونیشیا کے کئی ممتاز ماحولیاتی کارکن بھی اس گفتگو میں شریک ہیں۔
تصویر: DW/A. Tauqeer
ماحول دوست مسجد
انڈونیشیا میں کئی ایسی مساجد ہیں، جو مکمل طور پر ماحول دوست ہیں۔ اس منصوبے کے سربراہ ہایوں پروباوو نے کانفرنس کے شرکا کو بتایا کہ ایسی مساجد کس طرح تحفظ ماحول کو یقینی بناتی ہیں۔
تصویر: DW/A. Tauqeer
ماحول دوست مصنوعات
جکارتہ میں تیس اور اکتیس اکتوبر کو ہونے والی اس کانفرنس میں ماحول دوست مصنوعات کی نمائش بھی کی جا رہی ہے۔ پیغام دیا جا رہا ہے کہ ماحول دوست طرز زندگی کے بغیر زمین پر انسانوں کا مستقبل تاریک ہے۔
تصویر: DW/A. Tauqeer
ایکو فیشن
انڈونیشیا میں تحفظ ماحولیات کا موضوع نیا نہیں۔ اس دو روزہ کانفرنس کے دوران مقامی ماڈلز نے ماحول دوست مصنوعات کی نمائش بھی کی۔ جس کا مقصد روزمرہ کی زندگی میں ماحول دوست انداز اختیا ر کرنے پر زور دینا تھا۔
تصویر: DW/A. Tauqeer
7 تصاویر1 | 7
ماحولیاتی تبدیلیوں کے سات اثرات، جو آپ سوچ بھی نہیں سکتے!
دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے حیران کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں، مثلاﹰ کسی جانور کے بچے کی جنس کا بدل جانا بھی۔ اس مناسبت سے دیکھیے، ماحولیاتی تبدیلیوں کے سات ایسے اثرات جنہیں آپ نے شاید کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ہوشیار! جیلی فش غیر معمولی حد تک زیادہ
ماحولیاتی تبدیلیوں کا ایک عجیب سا اثر یہ ہوا ہے کہ بحیرہ روم کی ساحلی پٹیاں جیلی فش کے گڑھ بنتی جا رہی ہیں۔ اس لیے ساحلی سیاحت کرنے والے چوکنا رہیں۔ کافی حد تک جیلی فش کی اس غیر معمولی افزائش کا سبب ماحولیاتی تبدیلیاں ہو سکتی ہیں۔ بڑھتا ہوا سمندری درجہ حرارت جیلی فش کی افزائش میں معاون ہوتا ہے اور دوسری وجہ اس کی پسندیدہ خوراک یعنی پلانکٹن میں اضافہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
قیمتی لکڑی کمیاب ہوتی ہوئی
اگر آپ کے پاس اطالوی شہر کریمونا کا وائلن یا کوئی دوسرا تاروں والا ساز ہے، تواُسے بیچ کر لاکھوں ڈالر کما سکتے ہیں۔ اس کی وجہ وائلن یا ایسے سازوں کے لیے صنوبر کی لکڑی کا کمیاب ہوتا جانا ہے۔ اِس کمیابی کی وجہ سمندری طوفانوں کی بہتات ہے۔ متاثرہ اطالوی جنگل پینی ویگیو کے صنوبر کے درخت اب دوسرے مقامات پر لگائے جا رہے ہیں۔ لیکن وائلن بنانے کے لیے تو ڈیڑھ سو سال پرانے صنوبر کی لکڑی درکار ہوتی ہے۔
تصویر: Angelo van Schaik
نیند کو بھول جائیں
بڑے شہروں کی گرم راتوں میں عام لوگوں کی نیندیں کم ہونے لگی ہیں۔ سن 2050 تک بڑے یورپی شہروں کے درجہٴ حرارت میں ساڑھے تین ڈگری سینٹی گریڈ تک اضافہ ہو جانے کا امکان ہے۔ گرم موسم سے نیند کم اور مزاج خراب ہونے کا قوی امکان ہوتا ہے۔ تخلیقی سرگرمیاں متاثر اور ذہنی صحت بھی کمزور ہو سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R.K. Singh
ناک کی فکر کریں
گرم ہوتے موسموں نے پولن الرجی کے پھیلاؤ میں بھی اضافہ کردیا ہے۔ جنگلوں اور شہروں میں درختوں کی افزائش کے موسم طوالت اختیار کر گئے ہیں اور اسی باعث پودوں اور درختوں کے زرِگُل (پولن) کا پھیلاؤ بھی بڑھ گیا ہے۔ بہار کے موسم میں بہت سے لوگ پولن الرجی کا شکار ہو کر بار بار چھینکتے دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K.-J. Hildenbrand
بیکٹیریا اور مچھر
گرم ہوتے موسموں میں پسینہ بھی زیادہ آتا ہے۔ بہت زیادہ پسینہ بھی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ رواں صدی کے آخر تک دنیا کی تین چوتھائی آبادی شدید گرمی کا سامنا کرنے پر مجبور ہو سکتی ہے۔ بڑھتے ہوئے درجہٴ حرارت سے قے اور دست کے امراض میں اضافہ ممکن ہے۔ بیکٹیریا کی افزائش بھی گرم موسم میں بڑھ جاتی ہے اور اسی طرح مچھروں سے پھیلنے والی بیماریوں (ملیریا وغیرہ) میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Schulze
مکانات گر رہے ہیں
قطب شمالی میں درجہٴ حرارت بڑھنے سے برف پگھل رہی ہے۔ اس کے وسیع تر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ گرم موسموں سے مکانات کے کمزور پڑ جانے اور سڑکوں میں دراڑیں پڑنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اس باعث کئی طرح کے کیڑے زمین سے نکلنا شروع ہو سکتے ہیں۔ برف پگھلنے سے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین گیسیں نکلتی ہیں، جو موسم میں مزید حدت کی وجہ بن سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Antonov
نر یا مادہ! موسمیاتی تبدیلیاں کیا کہتی ہیں
موسمی درجہٴ حرارت کئی اقسام کی جنگلی حیات کی جنس پر بھی اثرانداز ہو سکتا ہے۔ مثلاﹰ سمندری کچھوے کے انڈوں کے لیے ساحلی ریت کی عمومی حدت ہی پیدا ہونے والے جانور کی جنس کا تعین کرتی ہے۔ کم درجہ حرارت کے نتیجے میں زیادہ تر نر کچھوے پیدا ہوتے ہیں اور زیادہ گرمی کے باعث مادہ۔ اس وقت شمالی آسٹریلیا میں ننانوے فیصد کچھوے مادہ پیدا ہوتے ہیں۔ اسی لیے اب ان کی نسل کے معدوم ہو جانے کا خدشہ بھی بڑھ گیا ہے۔