گزشتہ برس ایک لاکھ سے زائد تارکین وطن کو جرمن شہریت دی گئی
شمشیر حیدر11 جولائی 2016
جرمنی کے وفاقی دفتر شماریات کے مطابق 2015ء کے دوران ایک لاکھ سے زائد غیر ملکیوں کو جرمن شہریت دی گئی۔ اعداد و شمار کے مطابق شہریت حاصل کرنے والے غیر ملکیوں کی تعداد میں پچھلے برسوں کے نسبت کچھ کمی ہوئی ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق 2015ء کے دوران جرمن شہریت حاصل کرنے والے غیر ملکیوں کے بارے میں اعداد و شمار وفاقی دفتر شماریات نے آج گیارہ جولائی بروز پیر جاری کیے۔ پچھلے سال مجموعی طور پر ایک لاکھ سات ہزار دو سو غیر ملکیوں کو جرمن شہریت دی گئی جن میں قریب چودہ سو پاکستانی بھی شامل تھے۔
وفاقی دفتر شماریات کے مطابق جرمن شہریت حاصل کرنے والوں کی تعداد میں 2014ء کی نسبت معمولی (تقریباﹰ ایک فیصد) کمی واقع ہوئی ہے۔ سب سے نمایاں کمی جرمن شہریت حاصل کرنے والے ترک باشندوں کی تعداد میں دیکھی گئی۔ 2015ء میں 19700 ترک باشندوں کو جرمن شہریت دی گئی، جو 2014ء یعنی اس سے ایک سال پہلے کے مقابلے میں 12.5 فیصد کم تھی۔ اس تقابلی کمی کے باجود پچھلے سال بھی جرمن شہریت حاصل کرنے والوں میں ترک شہریوں کا تناسب سب سے زیادہ رہا۔
[No title]
اس دوران جرمنی میں مقیم پاکستانی شہریوں کو جرمن شہریت دیے جانے کے تناسب میں قریب سات فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ 2015ء میں 1390 پاکستانیوں نے جرمن شہریت حاصل کی، جن میں قریب 650خواتین بھی شامل تھیں۔ اس سے قبل 2014ء میں 1300 پاکستانی باشندوں نے جرمن شہریت حاصل کی تھی۔
پچھلے برس مجموعی طور پر جنوبی ایشیائی ممالک سے تعلق رکھنے والے سات ہزار آٹھ سو غیر ملکیوں نے جرمن پاسپورٹ حاصل کیا، جن میں ساڑھے تیرہ سو بھارتی شہری بھی شامل تھے۔ اس طرح جرمن شہریت کے حصول میں گزشتہ برس اپنی مجموعی تعداد کے حوالے سے پاکستانی شہری بھارتی شہریوں سے تھوڑا سا آگے رہے۔
یورپی یونین کے رکن ممالک سے تعلق رکھنے والے غیر ملکیوں میں بھی جرمن شہریت حاصل کرنے کے رجحان میں 1.8 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ پولینڈ کے تقریباﹰ چھ ہزار باشندوں نے جرمن شہریت حاصل کی جب کہ یہی فیصلہ کرنے والے اطالوی باشندوں کی تعداد بھی 3400 کے قریب رہی۔
اعداد و شمار کے مطابق دیگر یورپی ممالک کے باشندوں میں بھی جرمن شہریت کے حصول کے رجحان میں 8.6 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ پچھلے سال تقریباﹰ 4200 یوکرائنی باشندوں نے بھی جرمن شہریت حاصل کی۔ یہ تعداد اس سے ایک سال پہلے کے مقابلے میں قریب ایک تہائی زیادہ تھی۔
دیگر ممالک کو دیکھا جائے تو اسی عرصے کے دوران جرمن شہریت حاصل کرنے والوں میں 881 امریکی شہری اور ڈھائی ہزار سے زائد افغان باشندے بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ قریب پندرہ سو اسرائیلی شہریوں نے بھی جرمن شہریت حاصل کی جب کہ ان کے مقابلے میں ایسے فلسطینیوں کی تعداد محض 43 رہی۔
خوش آمدید: جرمنی میں مہاجرین کے لیے منفرد رہائش گاہیں
مہاجرین کی رہائش کے لیے روایتی طور پر خیمے، کنٹینرز اور متروکہ ہارڈ ویئر اسٹورز استعمال کیے جاتے ہیں۔ تاہم جرمنی میں مہاجرین کی رہائش کے لیے اچھوتے منصوبوں پر غور جاری ہے تاکہ وہ جرمنی میں آرام دہ زندگی بسر کر سکیں۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
چھتوں کے اوپر
جرمن شہر ہینوور کی یونیورسٹی میں آرکیٹیکچر کے طالب علموں نے ایک منصوبے کے تحت مہاجرین کی رہائش کے لیے متعدد ماڈل تیار کیے ہیں۔ اس منصوبے کا مقصد شہر میں ایسی رہائش گاہیں تعمیر کرنا ہے، جہاں کھلا ماحول دستیاب ہو۔ تصویر میں نظر آنے والے اس ماڈل میں عمارتوں کے اوپر رہائش گاہیں تعمیر کرنے کا خیال پیش کیا گیا ہے، جس پر عملدرآمد کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ دیگر ماڈل فی الوقت خیالی قرار دیے جا رہے ہیں۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
تیرتے ہوئے گھر
جرمنی میں تقریباﹰ 870 بڑے کارگو بحری جہاز استعمال میں نہیں لائے جا رہے۔ انہیں مہاجرین کی پناہ گاہوں میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ دریاؤں کا پانی فلٹر کرنے کے بعد ان جہازوں میں بنے مکانات کے آئندہ رہائشیوں کے لیے استعمال میں لایا جا سکتا ہے جبکہ مکینوں کے لیے بجلی کا انتظام شمسی توانائی اور ہوا کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
رہائش کا شاندار خیال
ہینوور شہر میں واقع ڈچ پویلین، جہاں ایکسپو 2000ء نامی عالمی نمائش منعقد کی گئی تھی، اب خالی پڑی ہے۔ ممکنہ طور پر اس کو بھی مہاجر کیمپ بنایا جا سکتا ہے۔ اس عمارت کی تیسری منزل پر ایک بڑا گارڈن بھی ہے، جو مہاجرین کی رہائش اور آپس میں میل ملاپ کی خاطر ایک سینٹر کے طور پر اچھا متبادل ثابت ہو سکتا ہے۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
بنے بنائے گھر
لکڑی کے بنے بنائے گھروں کے ماڈل کسی بھی خالی مقام پر نصب کیے جا سکتے ہیں۔ بالخصوص دو عمارتوں کے درمیان واقع خالی جگہوں میں ان گھروں کو ضرورت کے مطابق کاٹ کر تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ ایسے مکانات محض دو تین دنوں میں تعمیر کیے جا سکتے ہیں اور ضرورت پوری ہونے پر انہیں سہولت کے ساتھ وہاں سے کہیں بھی منتقل کیا جا سکتا ہے۔ یہ گھر آسانی سے دفاتر میں بھی تبدیل کیے جا سکتے ہیں۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
باغوں میں تعمیر کردہ گھر
جرمنی میں کئی چھوٹے چھوٹے مکانات باغیوں میں بھی تعمیر کیے گئے ہیں۔ ان کے مالکان انہیں باغبانی سے دلچسپی رکھنے والے افراد کو کرائے پر بھی دیتے ہیں۔ ان گھروں میں بنیادی ضروریات کی تمام چیزیں ہوتی ہیں۔ لائپزگ یونیورسٹی کے طالب علموں نے تجویز کیا ہے کہ ایسے گھروں کو مہاجرین کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔ خوبصورت باغیچوں میں قائم یہ رہائش گاہیں بے گھر افراد کی اداسی دور کرنے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
کار پارکنگ کی عمارتوں میں رہائش
جرمن شہروں میں پبلک پارکنگ کے کئی ایسے مقامات بھی ہیں، جو مکمل طور پر استعمال میں نہیں لائے جا رہے۔ شہروں کے وسط میں قائم کردہ پارکنگ کے لیے بنائی گئی یہ عمارتیں مہاجرین کے سینٹرز میں تبدیل کی جا سکتی ہیں۔ زیر زمین واقع ان عمارتوں کی کچھ منزلوں کو مہاجر سینٹر بنا دینے کے باوجود انتہائی نچلی منزلوں کو پھر بھی پارکنگ کے لیے استعمال میں لایا جا سکے گا۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
منفرد طرز کے موبائل گھر
ہینوور کے شمال میں واقع ایک پرانا کارگو اسٹیشن کئی برسوں سے بند پڑا ہے۔ وہاں بھی مہاجروں کے قیام اور آرام کے لیے عارضی رہائش گاہیں بنائی جا سکتی ہے۔ آرکیٹیکچر کے طالب علموں نے اس اسٹیشن پر استعمال میں نہ لائی جانے والی بوگیوں کی مدد سے گھروں کا ڈیزائن تیار کیا ہے۔ جرمنی کے تقریباﹰ ہر شہر میں ایسے پرانے بے آباد اسٹیشن اب بھی قائم ہیں، جنہیں مہاجرین کی رہائش گاہوں کے طور پر کارآمد بنایا جا سکتا ہے۔