گزشتہ برس جرمنی میں 83 صحافیوں پر حملے ہوئے
12 اپریل 2022جرمن شہر لائبزگ میں قائم یورپی سینٹر فار پریس اینڈ میڈیا فریڈم (ECPMF) کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال جرمنی میں مرد و خواتین صحافیوں پر 83 جسمانی حملے ہوئے، جو 2020 ء کے کیسز کے مقابلے میں 14 زیادہ کیسز بنتے ہیں۔
رپورٹ میں مزید برآں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 124 میڈیا ورکرز کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ ان میں صحافیوں کی ٹیمیں بھی شامل ہیں۔ محققین کا تاہم کہنا ہے کہ صحافیوں پر جسمانی حملوں کے غیر رپورٹ شدہ کیسز کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
صحافیوں پر جسمانی حملوں سے متعلق اس رپورٹ سے پتا چلا ہے کہ حملوں کے مذکورہ کیسز کا 75 فیصد کورونا اقدامات کے مخالفین کے مظاہروں کے دوران رونما ہوا۔
'ماسک اتار دو‘جرمنی میں کورونا پابندیوں کے خلاف مظاہرے
2021 ء میں صحافیوں کے لیے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے کام انجام دینا سب سے زیادہ مشکل اور خطرناک انہیں مقامات پر رہا جہاں مظاہرے اور احتجاج کیے جاتے تھے۔ اس مطالعاتی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ جہاں جہاں کورونا اقدامات کے مخالفین اکٹھا ہو کر مظاہرے کر رہے تھے وہاں وہاں صحافیوں کو دھمکانے ڈرانے اور ان پر حملے کرنے کے واقعات خاص طور سے زیادہ نوٹ کیے گئے۔ اس کے سبب میڈیا کے شعبے سے جُڑے عناصر احتجاج وغیرہ کی رپورٹنگ سے گریز بھی کرنے لگے۔
مختلف جرمن علاقے
مشرقی جرمن صوبے سیکسنی میں سب سے زیادہ حملے ریکارڈ کیے گئے اور ان کی تعداد 23 بتائی جا رہی ہے لیکن مغربی جرمنی میں بھی پریس کارکنوں پر حملوں میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے۔
تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 'نفرت میں اضافہ زیادہ مغربی علاقوں میں ہو رہا ہے۔ مغربی جرمنی میں پریس کے خلاف کارروائیوں کا مشاہدہ کیا گیا جس سے پتا چلا کہ پریس سے نفرت ایک اقلیتی گروپ کی معمولات زندگی کا حصہ بن چُکا ہے۔‘
علاوہ ازیں دیگر جرمن علاقے، لوئر سیکسنی میں 21، برلن میں 14، باویریا میں دس، باڈن ورٹمبرگ میں چھ ، تھیورنگیا اور ہیسے میں تین، تین اور نارتھ رائن ویسٹ فیلیا، میکلنبرگ فورپورمن اور شلیسوگ ہولسشٹائن میں ایک ایک کیس ریکارڈ کیا گیا۔
2015 ء سے ECPMF جرمنی میں صحافیوں پر جسمانی حملوں کی تصدیق کرتی آئی ہے۔
جرمنی نظم و ضبط والا ملک
عام طور سے جرمن شہریوں کو نظم و ضبط کی پابندی کرنے والوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس تناظر میں 2020 ء میں کورونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران لوگوں نے حکومت کی طرف سے نافذ کردہ قواعد و ضوابط کا بھرپور احترام کیا تھا۔
اس تناظر میں سوئٹزرلینڈ کے ایک اخبار 'نوئے زیورشر سائٹنگ‘ نے جرمن شہریوں کو 'یورپ کے ماڈل شاگرد‘ قرار دیا تھا۔ تاہم سبھی ایسے نہیں تھے کئی افراد نے ان پابندیوں کے خلاف مظاہروں میں حصہ لیا تھا۔
کورونا وبا کے دوسرے سال بھی جیسے جیسے کورونا ضوابط اور پابندیوں میں توسیع کی گئی ویسے ویسے مظاہرے اور احتجاج کا سلسلہ بھی جاری رہا۔
ک م/ ع ب ) اے ایف پی ڈی(