1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گزشتہ برس سعودی عرب نے 170 افراد کو سزائے موت دی

2 جنوری 2024

سعودی عرب نے سن 2023 میں 170 افراد کو موت کے گھاٹ اتارا جبکہ چار افراد کو نئے سال کے آغاز سے کچھ ہی گھنٹے پہلے سزائے موت دی گئی۔ اسی طرح غداری کے الزام میں دو فوجیوں کے سر بھی قلم کر دیے گئے۔

گزشتہ برس سعودی عرب نے 170 افراد کو سزائے موت دی
گزشتہ برس سعودی عرب نے 170 افراد کو سزائے موت دیتصویر: YASSER AL-ZAYYAT/AFP/Getty Images

نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں گزشتہ برس سن 2022 سے بھی زیادہ افراد کو سزائے موت دی گئی۔ اس خلیجی ریاست میں سن 2022 کے دوران کل 147 مجرموں کو سزائے موت دی گئی تھی۔

اس تناظر میں انسانی حقوق کی تنظیمیں باقاعدگی کے ساتھ سعودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتی رہتی ہیں۔ ایسی تنظیمیوں کا کہنا ہے کہ سزائے موت کا اتنی شدت سے استعمال انتہائی قابل مذمت ہے۔

سعودی عرب کی سرکاری پریس ایجنسی کے مطابق، جن چار افراد کو اتوار کے روز موت کی سزا دی گئی، وہ تمام قتل کے جرم میں سزا یافتہ تھے۔ دو مجرمان کو شمال مغربی شہر تبوک، ایک کو دارالحکومت ریاض اور ایک کو جنوب مغربی صوبے جازان میں موت کے گھاٹ اتارا گیا۔

سن 2023 کے دوران، جن افراد کو موت کی سزائیں دی گئیں، ان میں سے 33 افراد کو دہشت گردی سے متعلقہ جرائم میں یہ سزائیں سنائی گئی تھیں۔ اسی طرح دو فوجیوں کو غداری کا مرتکب ہونے کے الزام میں سزائے موت دی گی۔

سب سے زیادہ 38 مجرموں کی سزاؤں پر عمل درآمد گزشتہ برس دسمبر میں کیا گیا۔

انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق سن 2022 میں چین اور ایران کے بعد سب سے زیادہ موت کی سزائیں سعودی عرب میں دی گئی تھیں۔

سعودی عرب میں مجرموں کے سر قلم کرنے کی روایت ہے۔ مارچ 2022 میں اس ملک میں صرف ایک دن میں ہی 81 افراد کے سرقلم کر دیے گئے تھے، جس کی بین لاقوامی سطح پر شدید مذمت کی گئی تھی۔

 سعودی حکام کا کہنا ہے کہ موت کی سزا شریعت کے قانون اور قرآن کی تعلیمات کے مطابق ہے اور یہ ''امن عامہ کو برقرار رکھنے‘‘ کے لیے ضروری ہے۔

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان دنیا کے سب سے بڑے خام تیل برآمد کنندہ ملک کو کاروبار اور سیاحت کے مرکز میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ سزائے موت ایک زیادہ کھلے اور روا دار معاشرے کے تصور کے منافی ہے۔

ا ا/ ک م (اے ایف پی)  

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں