1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گزشتہ برس مہاجرین کی ترجیحی منزل اسپین رہی

4 جنوری 2019

گزشتہ برس بحیرہء روم عبور کر کے یورپی یونین تک پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد کے اعتبار سے اسپین اٹلی سے آگے رہا۔ یہ بات یورپی یونین کے سرحدی نگرانی کے ادارے فرونٹیکس کی جانب سے بتائی گئی ہے۔

Spanien Ankunft von Flüchtlingen in Andalusien
تصویر: picture-alliance/CITYPRESS 24/F. Passolas

یورپی یونین کے مطابق گزشتہ برس یعنی سال 2018ء کے دوران بحیرہ روم کو عبور کر کے یورپ پہنچنے والے مہاجرین کی بڑی منزل اسپین رہی۔ قبل ازیں ایسے مہاجرین کی ترجیحی منزل اٹلی رہی تھی۔ مزید یہ کہ گزشتہ برس بحیرہ روم کے ذریعے اٹلی پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد گزشتہ پانچ برس کے دوران کی کم ترین سطح پر رہی۔

یورپی سرحدی نگرانی کے ادارے فرونٹیکس کے مطابق گزشتہ برس غیرقانونی طریقے سے یورپی یونین پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد ڈیڑھ لاکھ تھی، جو گزشتہ پانچ برسوں کی کم ترین تعداد ہے۔ خیال رہے کہ یہ تعداد 2015ء میں یورپ کا رُخ کرنے والے مہاجرین کے مقابلے میں ایک ملین کم تھی۔ اُس سال ریکارڈ تعداد میں مہاجرین یورپی یونین کے مختلف ممالک میں پہنچے تھے۔

یورپی سرحدی نگرانی کے ادارے فرونٹیکس کے مطابق گزشتہ برس غیرقانونی طریقے سے یورپی یونین پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد ڈیڑھ لاکھ تھی، جو گزشتہ پانچ برسوں کی کم ترین تعداد ہے۔تصویر: picture-alliance/dpa/C. Charisius

فرونٹیکس کے مطابق سن 2018ء میں اٹلی پہنچنے والے غیرقانونی تارکین وطن کی تعداد میں 80 فیصد کم ہو کر 23,000 تک محدود رہی۔ خیال رہے کہ اٹلی غیر قانونی طور پر آنے والے مہاجرین کا راستہ روکنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔

 دوسری جانب اسپین کا رخ کرنے والے غیرقانونی تارکین وطن کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ فرونٹیکس کے مطابق سال 2018ء کے دوران 57,000 مہاجرین اسپین پہنچے۔ یہ تعداد اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں قریب دو گُنا ہے۔ اسپین پہنچنے والے زیادہ تر مہاجرین مراکش کے راستے اسپین پہنچے۔

فرونٹیکس کے مطابق سال 2018ء کے دوران 57,000 مہاجرین اسپین پہنچے۔تصویر: picture-alliance/CITYPRESS 24/F. Passolas

رپورٹ کے مطابق مشرقی میڈیٹرینیئن روٹ کہلانے والے راستے سے یونان اور قبرص پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد گزشتہ برس 56,000 رہی۔ ان دونوں ممالک میں پہنچنے والے زیادہ تر مہاجرین کا تعداد افغانستان، شام اور عراق سے ہے۔

جرمن ڈاکٹر کو مہاجرین کی مدد کرنا مہنگا پڑ گیا

01:36

This browser does not support the video element.

ا ب ا / ع ت (روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں