1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتجرمنی

گزشتہ برس ہر دسویں جرمن کمپنی سائبر حملوں سے متاثر ہوئی

18 جون 2023

یورپی یونین کی سب سے بڑی معیشت جرمنی میں گزشتہ برس ہر دسویں پیداواری یا کاروباری ادارے کو سائبر حملوں یا آن لائن سکیورٹی سے متعلق اسی نوعیت کے ناخوشگوار واقعات کا سامنا کرنا پڑا۔

Symbolbild Cyber Crime
تصویر: allOver-MEV/IMAGO

جرمنی میں کسی بھی طرح کی پیداواری مصنوعات اور اشیاء کے صنعتی حوالے سے معیاری ہونے کی تصدیق کرنے والے ادارے ٹیکنیکل انسپکشن ایسوسی ایشن یا ٹیُوف (TÜV) کی طرف سے کرائے گئے ایک ملک گیر جائزے میں 501 جرمن کاروباری اداروں سے 2022ء میں انہیں پیش آنے والے سائبر حملوں یا ان سے ملتے جلتے منفی واقعات کی تفصیلات پوچھی گئی تھیں۔

مجوزہ یورپی سائبر قوانین، امریکی اداروں کا انتباہ

جرمن ٹیکنیکل انسپکشن ایسوسی ایشن کے صدر یوہانیس بُسمان نے برلن میں اس سروے کے نتائج جاری کرتے ہوئے بتایا، ''جرمن معیشت میں سائبر حملے اب شاذ و نادر ہی پیش آنے والے کوئی استثنائی واقعات نہیں رہے، بلکہ ایسا ہونا اب معمول کی بات بن چکا ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات جلد یا بدیر ہر ادارے کو متاثر کرتے ہیں۔ جہاں تک ایسے پیداواری اور کاروباری اداروں کی اپنی سوچ کا تعلق ہے، تو ان کی رائے یہ ہے کہ انہیں سب سے بڑے خطرات کا سامنا سائبر کرائمز کا ارتکاب کرنے والے منظم گروہوں سے ہے۔

جرمنی میں کار سازی کی صنعت ملکی صنعتی پیداواری شعبے کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہےتصویر: picture-alliance/U. Baumgarten

تاہم یہ بات بھی اہم ہے کہ ایسے حملوں میں کبھی کبھی مجرم ان اداروں کے اندر ہی سے بھی ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ متعلقہ اداروں کے ماجودہ یا سابقہ ملازمین بھی ہو سکتے ہیں۔

’اسٹیٹ ایکٹرز‘ بطور حملہ آور

یوہانیس بُسمان نے بتایا کہ کئی واقعات میں ایسے سائبر حملہ آور ریاستوں کے ایما پر آن لائن حملے کرنے والے کارندے بھی ہوتے ہیں۔

اس کی ایک مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب سے روس نے یوکرین پر فوجی حملے کے ساتھ اور ابھی تک جاری رہنے والی جنگ شروع کی ہے، جرمن اداروں پر کیے جانے والے سائبر حملوں کی تعداد واضح طور پر زیادہ ہو چکی ہے۔

امریکہ نے چینی ٹیلی کام اور نگرانی والے کیمروں پر پابندی لگادی

ٹیُوف کے صدر نے بتایا، ''جنگی محاذوں پر لڑی جانے والی جنگ کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ پر بھی ایک سائبر جنگ جاری ہے۔ یہ صرف یوکرین کے خلاف ہی نہیں بلکہ ہمارے خلاف بھی لڑی جا رہی ہے۔‘‘

بہت سے سائبر حملے حریف ریاستوں کے ایما پر بھی کیے جاتے ہیںتصویر: Silas Stein/imago images

مالیاتی اور سائبر جرائم: دنیا بھر کی پولیس پریشان، انٹرپول

انہوں نے اس کی ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ دفاعی شعبے کی آٹوموٹیو اور ہتھیار تیار کرنے والی کمپنی رائن میٹال جیسے جرمن ادارو‌ں پر سائبر حملے ''محض حادثاتی طور پر پیش آنے والے واقعات نہیں ہیں۔‘‘

سائبر حملوں کے سنگین نتائج

اس سروے میں نہ صرف ہر دس میں سے ایک جرمن ادارے نے تصدیق کی کہ اسے 2022ء میں اپنے خلاف سائبر حملوں کا سامنا کرنا پڑا بلکہ تقریباﹰ 16 فیصد اداروں کے اعلیٰ منتظمین نے یہ بھی کہا کہ ان کی کمپنیوں پر آن لائن حملے پہلے سے زیادہ ہو چکے ہیں۔

سائبر حملوں کا خطرہ، اسمارٹ ڈیوائسز کے لیے قانون سازی

سروے میں سولہ فیصد جرمن اداروں نے یہ بھی کہا کہ ان پر آن لائن حملے پہلے سے زیادہ ہو چکے ہیںتصویر: Imago Images/photothek/T. Trutschel

نصف سے زائد جرمن اداروں نے یہ بھی کہا کہ یوکرینی جنگ کے باعث ان پر سائبر حملوں کا خطرہ بڑھ چکا ہے۔

روس جرمنی میں سائبر حملوں سے باز رہے، برلن حکومت

یوہانیس بُسمان کے مطابق ایسے سائبر حملوں کے اقتصادی نتائج اکثر سنگین ہوتے ہیں۔ مثلاﹰ ہدف بنائے گئے اداروں کی ان کے صارفین کے لیے خدمات مفلوج ہو جاتی ہیں، کارکنوں کو کمپنیوں کے آن لائن سسٹمز تک رسائی حاصل نہیں ہوتی، پیداواری عمل رک جاتا ہے یا پھر کمپنیوں کا حساس ڈیٹا چوری کر لیا جاتا ہے۔

انہی خطرات کے پیش نظر 50 فیصد سے زائد جرمن ادارے اپنے ہاں سائبر سکیورٹی کے لیے بجٹ اور متعلقہ حفاطتی انتطامات میں واضح اضافہ کر چکے ہیں۔

م م / ع ا (ڈی پی اے، اے ایف پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں