1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتپاکستان

’سن 2023 میں خیبر پختونخوا کی صورتحال باعث تشویش رہی‘

فریداللہ خان، پشاور
12 جون 2024

ایچ آر سی پی کی 2023 کی سالانہ رپورٹ برائے خیبرپختونخوا، پریشان کن واقعات کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس سال صوبے بھر میں پرتشدد واقعات کے نتیجے میں کم از کم 160 پولیس اہلکار، تقریبا 70 فوجی اور 60 سے زائد عام شہری مارے گئے۔

Bericht von Menschenrechtskommission Pakistan
تصویر: Faridullah Khan/DW

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے گزشتہ برس کے دوران خیبر پختونخوا میں امن وامان، صحت اور تعلیم کی ابتر صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس ادارے نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ انسانی حقوق کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے خیبر پختونخوا کے بارے میں اپنی سالانہ رپورٹ برائے 2023 میں شہریوں کے لیے بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی کے علاوہ  امن و امان کی ابتر صورتحال پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق صوبے میں گزشتہ سال کے دوران شہریوں کو صحت اور ماحولیات سمیت مہنگائی اور بے روزگاری کے مسائل نے شدید مالی اور نفسیاتی نقصان پہنچایا ہے۔

خیبر پختونخوا میں سات سال میں سوا سو سے زائد ٹرانس جینڈر افراد قتل

پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر پینٹاگون کی رپورٹ:ملا جُلا رد عمل

کمیشن کی سالانہ رپورٹ کے مطابق صوبے بھر میں گزشتہ سال امن و امان کی صورتحال مجموعی طور پر ابتر رہی۔ اس رپورٹ میں خیبر پختونخوا میں عوامی بے چینی، قتل و غارت، صحت عامہ اور ماحولیاتی بحرانوں جیسے موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔

صوبے بھر میں عوامی بے چینی نمایاں رہی

حکومت کے مطابق صوبے میں بدامنی سے نمٹنے کے لیے کیے گئے مختلف سکیورٹی آپریشنز کے نتیجے میں کم از کم 170 عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا۔ 

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان، خیبر پختونخوا کے نائب چیئرمین اکبر خان کا کہنا ہے، ''سال بھر کے دوران صوبے میں عوام عدم اطمینان کا شکار رہے۔ سینکڑوں کی تعداد میں ڈاکٹرز، محکمہ صحت کے اہلکار، سینیٹری ورکرز، جامعات کے اساتذہ سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آئے۔‘‘

اکبر خان کا مزید کہنا تھا کہ ان اداروں کو چلانے والے کارکنوں نے تنخواہ اور بقایا جات کے لیے احتجاج کا راستہ اپنایا۔ ان کے بقول پاکستان اور افغانستان کے سرحد کو بند کرنے کی وجہ سے ہزاروں لوگوں کی نقل و حمل رک گئی جبکہ لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین اور تارکین وطن کو زبردستی ملک سے بیدخل کردیا گیا، جس کی وجہ سے ان لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہوا۔ اکبر خان کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال مالیاتی بحران اور قدرتی آفات نے بھی خیبر پختونخوا کے عوام کو بری طرح متاثر کیا۔

کمیشن کی سالانہ رپورٹ کے مطابق صوبے بھر میں گزشتہ سال امن و امان کی صورتحال مجموعی طور پر ابتر رہیتصویر: ABDUL MAJEED/AFP/Getty Images

حکومت کا مؤقف کیا ہے؟

ادھر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر برائے اطلاعات و تعلقات عامہ ڈاکٹر محمد علی سیف کا کہنا ہے،''صوبائی حکومت کو دہشت گردی اور بالخصوص ٹارگٹ کلنگ پر تشویش ہے اور ان واقعات کو روک تھام کے لیے عوامی تعاون حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘‘

محمد علی سیف کا مزید کہنا تھا کہ صوبے کے پاس وسائل کی کمی ہے، اس سلسلے میں وفاقی حکومت کو بار بار وسائل کی فراہمی کا کہا گیا لیکن وفاقی حکومت کی جانب سے عدم تعاون کی وجہ سے دہشت گردی کے واقعات پر قابو پانے میں دشواری کا سامنا ہے۔

اچھے اقدامات کی ستائش

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے خیبر پختونخوا چپٹر نے جسٹس مسرت ہلالی کو پشاور ہائی کورٹ کی پہلی خاتوں چیف جسٹس اور بعدازاں سپریم کورٹ کی جج تعینات کرنے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔

پاکستان میں خود ساختہ راست باز صحافت کی بڑھتی سنسنی خیزی

پاکستان میں 2023ء میں ایک دہائی کے سب سے زیادہ خود کش حملے

اسی طرح صوبے میں خواتین کو گھریلو تشدد سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے صوبائی کابینہ کے قواعد و ضوابط کی منظوری کو بھی ایک احسن اقدام قرار دیا گیا ہے تاہم 47 لاکھ بچوں (جن میں 66 فیصد لڑکیاں شامل ہیں) کی اسکول کی تعلیم سے محرومی کو تشویش ناک قرار دیا گیا ہے۔

اس رپورٹ میں صوبے کے ذہنی صحت سے متعلق پہلے ادارے 'انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ سائنسز‘ کے قیام کی بھی ستائش کی ہے۔ اس ادارے کا قیام پشاور میں کیا گیا ہے۔

HRCP کے KP  چپٹر کے چیئرپرسن اسد اقبال بٹ نے اس رپورٹ کے اجراء کے موقع پر اصرار کیا ہے کہ صوبائی حکومت اور مقننہ کو شہریوں کے خدشات دور کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنا چاہییں تاکہ ان کے جمہوری اور بنیادی حقوق کو یقینی بنایا جا سکے۔

پاکستان میں کیا انسانی حقوق کی صورتحال ابتر ہو گئی ہے؟

02:44

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں