1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گلوبل وارمنگ ہمالیہ کے برفانی تودوں پر غیر مؤثر

16 اپریل 2012

سائنسدانوں کے مطابق دنیا کے چند بڑے گلیشیئرز میں سے ایک ہمالیہ کا خطہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے مقابلہ کرنے میں کامیاب رہا ہے۔

تصویر: picture-alliance/dpa

کئی برسوں سے ماہرین مغربی ہمالیہ کی قراقرم رینج میں بیس ہزار اسکوائر کلومیٹر کے رقبے پر پھیلے ہوئے برفانی تودوں پر تحقیق کر رہے ہیں۔ یہ گلیشیئرز چین، پاکستان اور بھارت کے حصوں میں پھیلے ہوئے ہیں، اور قراقرم کی چوٹی، کے ٹو، دنیا کی دوسری اونچی پہاڑی چوٹی ہے۔ اس کے گلیشیئرز گرین لینڈ اور قطب شمالی کے منجمد علاقوں کے برفانی تودوں کو چھوڑ کر دنیا کا تین فیصد برفانی علاقہ ہیں۔

عالمی درجہ حرارت میں اضافے یا گلوبل وارمنگ کی وجہ سے دنیا بھر کے گلیشئرز پھگلنے کے عمل سے گزر رہے ہیں، جو کہ سطح سمندر میں اضافے کا سبب بھی بن رہے ہیں۔ قراقرم کی صورت حال اب تک خاصی مبہم رہی ہے۔

اب ایک فرانسیسی ٹیم نے اپنی ایک تحقیق کے ذریعے یہ پتہ لگایا ہے کہ سن دو ہزار سے دو ہزار آٹھ تک یہ گلیشیئرز نہ صرف یہ کہ پگھلے نہیں بلکہ ان کی برف کی تہ میں اضافہ دیکھا گیا ہے، جو کہ ایک صفر اعشاریہ گیارہ ملی میٹرز فی برس کے لگ بھگ ہے۔

گلوبل وارمنگ کی وجہ سے دنیا بھر کے گلیشئرز پھگلنے کے عمل سے گزر رہے ہیںتصویر: AP

اس حوالے سے فرانسیسی محققین کہتے ہیں کہ قراقرم کی صرت حال دنیا کے دیگر برفانی علاقوں سے مختلف ہے اور فی الوقت یہاں کے گلیشیئرز میں استقامت دکھائی دیتی ہے۔ تاہم ان سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں لیا جانا چاہیے کہ مجموعی طور پر عالمی درجہ حرارت میں اضافہ نہیں ہو رہا۔ فرانسیسی ماہرین کی یہ تحقیق ’نیچرل جیو سائنس‘ نامی جریدے میں شائع ہوئی ہے۔

واضح رہے کہ اس تحقیق کے دائرے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان فوجی تنازعے کا اہم علاقہ سیاچن شامل نہیں ہے، جس کے بارے میں اسلام آباد میں قائم غیر سرکاری تھنک ٹینک ایس ڈی پی آئی یا ادارہ برائے پائدار ترقی کی تحقیق میں کہتی ہے کہ یہ پینتیس برسوں میں دس کلومیٹر تک سکڑ گیا ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ یہ بات واضح نہیں کہ قراقرم کے برفانی تودے گلوبل وارمنگ سے کس طرح بچے ہوئے ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں گرمی کی لہر کم اور برف کے جمنے کا عمل زیادہ دیکھا جا رہا ہے۔

ss/ai (AFP)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں