گلوبل کرپشن انڈکس: امریکا اور پاکستان کی رینکنگ مزید گر گئی
مقبول ملک
28 جنوری 2021
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق گزشتہ برس کے صدارتی انتخابات کے بعد جمہوری اقدار کو پہنچنے والے شدید نقصان کے باعث گلوبل کرپشن انڈکس میں امریکا کی پوزیشن مزید گر گئی۔ اس کے علاوہ پاکستان کی رینکنگ بھی اور خراب ہو گئی ہے۔
اشتہار
عالمی سطح پر بدعنوانی کے خلاف سرگرم تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی طرف سے جمعرات اٹھائیس جنوری کے روز بتایا گیا کہ 2020ء میں مسلمہ جمہوری روایات سے شدید نوعیت کے انحراف کے باعث امریکا اس عالمی درجہ بندی میں گزشتہ آٹھ برسوں کے دوران اپنی نچلی ترین سطح پر آ گیا۔
ٹرانسپیرنسی کے اس نئے سالانہ انڈکس میں امریکا نے 2019ء میں حاصل کیے گئے 100 میں سے 69 پوائنٹس کے مقابلے میں 2020ء میں 67 پوائنٹس حاصل کیے۔
گلوبل کرپشن انڈکس میں امریکی پوزیشن میں اس کمی کی وجہ صرف مروجہ جمہوری اصولوں سے بہت سنجیدہ نوعیت کا انحراف ہی نا بنا بلکہ اس کی کئی دیگر وجوہات بھی تھیں۔
ان وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران، جس نے دنیا بھر میں امریکا کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے، ایک ٹریلین ڈالر مالیت کا جو کووڈ بحالی پیکج منظور کیا گیا، اس کے مسلسل درست استعمال پر نگاہ رکھنے کے عمل میں بھی کافی کمزوریاں دیکھنے میں آئیں۔
2019ء میں امریکا اس انڈکس میں مجموعی طور پر 23 ویں نمبر پر تھا جبکہ نئی درجہ بندی میں اس کی پوزیشن دو درجے کم ہو کر 25 ویں ہو گئی۔ اس طرح اس انڈکس میں امریکا اب بھوٹان اور یوروگوائے جیسے ممالک سے بھی پیچھے چلا گیا ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا صدر دفتر جرمن دارالحکومت برلن میں ہے۔ اس تنظیم کے تازہ گلوبل کرپشن انڈکس کے مطابق امریکا میں گزشتہ برس اعلیٰ ترین ملکی قیادت کی سطح پر اختیارات کے مبینہ غلط استعمال اور مفادات کے تصادم کی مثالیں بھی دیکھنے میں آئیں۔
ٹرانسپیرنسی کے مطابق سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے انتخابی اہلکاروں پر دباؤ ڈالنے اور اپنے حامیوں کو تشدد پر اکسانے کی مبینہ کوششیں ایسے شواہد ہیں، جن کے ذریعے صدارتی الیکشن میں ڈالے گئے ووٹوں اور ان کے مصدقہ نتائج کو تبدیل کرانے کی کاوش کی گئی۔
دنیا کے کرپٹ ترین ممالک
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے ’کرپشن پرسپشن انڈیکس 2017‘ میں دنیا کے ایک سو اسی ممالک کی کرپشن کے حوالے سے درجہ بندی کی گئی ہے۔ کرپٹ ترین ممالک پر ایک نظر
تصویر: picture-alliance/U.Baumgarten
1۔ صومالیہ
افریقی ملک صومالیہ 9 پوائنٹس حاصل کر کے 180ویں نمبر پر ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق سن 2016 میں صومالیہ کے دس پوائنٹس تھے جب کہ اس سے گزشتہ تین برسوں کے دوران بھی یہ ملک آٹھ کے اسکور کے ساتھ کرپٹ ترین ملک رہا تھا۔
2۔ جنوبی سوڈان
افریقی ملک جنوبی سوڈان بارہ کے اسکور کے ساتھ 179ویں نمبر پر رہا۔ سن 2014 اور 2015 میں جنوبی سوڈان کو پندرہ پوائنٹس دیے گئے تھے تاہم گزشتہ دو برسوں کے دوران اس افریقی ملک میں بدعنوانی میں اضافہ ہوا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Negeri
3۔ شام
سب سے بدعنوان سمجھے جانے ممالک میں تیسرے نمبر پر شام ہے جسے 14 پوائنٹس ملے۔ سن 2012 میں خانہ جنگی شروع ہونے کے ایک سال بعد شام کا اسکور 26 تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Kilic
4۔ افغانستان
کئی برسوں سے جنگ زدہ ملک افغانستان ’کرپشن پرسپشین انڈیکس 2017‘ میں 15 کے اسکور کے ساتھ چوتھا کرپٹ ترین ملک قرار پایا۔ پانچ برس قبل افغانستان آٹھ پوائنٹس کے ساتھ کرپٹ ترین ممالک میں سرفہرست تھا۔
تصویر: DW/H. Sirat
5۔ یمن
خانہ جنگی کے شکار مشرق وسطیٰ کا ایک اور ملک یمن بھی 16 کے اسکور کے ساتھ ٹاپ ٹین کرپٹ ترین ممالک کی فہرست میں شامل رہا۔ سن 2012 میں یمن 23 پوائنٹس کے ساتھ نسبتا کم کرپٹ ملک تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Arhab
6۔ سوڈان
افریقی ملک سوڈان بھی جنوبی سوڈان کی طرح پہلے دس بدعنوان ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ سوڈان 16 کے اسکور حاصل کر کے یمن کے ساتھ عالمی درجہ بندی میں 175ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Chol
7۔ لیبیا
شمالی افریقی ملک لیبیا 17 پوائنٹس کے ساتھ کُل ایک سو اسی ممالک کی اس فہرست میں 171ویں نمبر پر رہا۔ سن 2012 میں لیبیا کا اسکور اکیس تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/H. Malla
8۔ شمالی کوریا
شمالی کوریا کو پہلی مرتبہ اس انڈیکس میں شامل کیا گیا اور یہ ملک بھی سترہ پوائنٹس حاصل کر کے لیبیا کے ساتھ 171ویں نمبر پر رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/W. Maye-E
9۔ گنی بساؤ اور استوائی گنی
وسطی افریقی ممالک گنی بساؤ اور استوائی گنی کو بھی سترہ پوائنٹس دیے گئے اور یہ لیبیا اور شمالی کوریا کے ساتھ مشترکہ طور پر 171ویں نمبر پر رہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Kambou
10۔ وینیزویلا
جنوبی امریکی ملک وینیزویلا 18 کے مجموعی اسکور کے ساتھ ایک سو اسی ممالک کی اس فہرست میں 169ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Barreto
بنگلہ دیش، کینیا اور لبنان
جنوبی ایشائی ملک بنگلہ دیش سمیت یہ تمام ممالک اٹھائیس پوائنٹس کے ساتھ کرپشن کے حوالے سے تیار کردہ اس عالمی انڈیکس میں 143ویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A.M. Ahad
ایران، یوکرائن اور میانمار
پاکستان کا پڑوسی ملک ایران تیس پوائنٹس حاصل کر کے چار دیگر ممالک کے ساتھ مشترکہ طور پر 130ویں نمبر پر رہے۔
تصویر: picture-alliance/AA/S. Coskun
پاکستان، مصر، ایکواڈور
پاکستان کو 32 پوائنٹس دیے گئے اور یہ جنوبی ایشیائی ملک مصر اور ایکواڈور کے ساتھ کل 180 ممالک میں میں مشترکہ طور پر 117ویں نمبر پر ہے۔ سن 2012 میں پاکستان کو 27 پوائنٹس دیے گئے تھے۔
تصویر: Creative Commons
بھارت اور ترکی
بھارت، ترکی، گھانا اور مراکش چالیس کے مجموعی اسکور کے ساتھ مشترکہ طور پر 81ویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/M. Swarup
14 تصاویر1 | 14
''مروجہ اخلاقی جمہوری روایات کی نفی کرنے والی اور شدید نوعیت کی ان مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکا کو 2020ء میں ملک کی اعلیٰ ترین منتخب قیادت کی سطح پر سرکاری اختیارات کے مبینہ غلط استعمال اور مفادات کے تصادم کا سامنا بھی رہا۔‘‘
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی اس کرپشن پرسَیپشنز انڈکس یا CPI نامی عالمی درجہ بندی میں گزشتہ برس کی طرح اس سال بھی ڈنمارک اور نیوزی لینڈ سرفہرست ہیں۔ ان دونوں ممالک میں سے ہر ایک کے پوائنٹس کی تعداد 88 ہے۔
اس کے برعکس اس عالمی رینکنگ میں برسوں سے خانہ جنگی کا شکار عرب ملک شام، بحران زدہ صومالیہ اور جنوبی سوڈان ماضی کی طرح اس سال بھی بالکل آخر میں ہیں۔
سیپ بلاٹر کی کہانی تصاویر کی زبانی
سیپ بلاٹر کس طرح فٹ بال کی دنیا میں سب سے اونچے مقام پر پہنچے؟ آئیے ہم آپ کو تصاویر کے ذریعے فیفا کی ان کی سترہ سالہ سربراہی کی کہانی دکھاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Yusni
فٹ بال کے بے تاج بادشاہ کا استعفی
سیپ بلاٹر چار روز قبل ہی پانچویں مرتبہ فٹ بال کے نگران بین الاقوامی ادارے فیفا کے سربراہ منتخب ہوئے تھے۔ اس انتخاب کو متنازعہ قرار دیا گیا جا رہا تھا۔ تاہم اب وہ رنگ میں اپنا تولیہ پھینک کر فیفا کو افراتفری کے عالم میں چھوڑ گئے ہیں۔ ان کا سترہ سالہ کیریئر کئی اسکینڈلز کی زد میں رہا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Wiegmann
ناقابل یقین کیریئر
سوئس شہری سیپ بلاٹر 1975ء میں فیفا میں شامل ہوئے تھے۔ اس سے قبل سوئس آئس ہاکی کے مرکزی سیکرٹری کا عہدے ان کے پاس تھا۔ وہ کھیلوں کے سوئس ادارے اور سوئٹزرلینڈ کے ایک معروف گھڑی ساز ادارے کی ترجمانی بھی کر چکے ہیں۔ کھیلوں کی اشیاء بنانے والے ادارے ایڈیڈاس کے صدر آڈولف ڈالسر کے توسط سے وہ فیفا میں آئے اور 1981ء میں وہ اس تنظیم کے جنرل سیکرٹری بن گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Weißbrod
منزل پر نظر
سترہ برس فیفا کے سابق سربراہ ژوآن ایولانژی کے جنرل سکریٹری رہنے کے بعد سیپ بلاٹر 1998ء میں فیفا کے نئے سربراہ بن گئے۔ انہوں نے ان انتخابات میں یورپی فٹ بال ایسوسی ایشن کے صدر لینارٹ یوہانسنز کو شکست دی تھی، جن کی کامیابی یقینی تصور کی جا رہی تھی۔ اس کے فوری بعد ہی یہ افواہیں گردش کرنے لگیں تھیں کہ معاشیات کی ڈگری رکھنے والے بلاٹر نے اس منصب پر پہنچنے کے لیے ووٹ خریدے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
بڑا نقصان
سیٹ بلاٹر پر تواتر کے ساتھ فیفا کے مالیاتی شعبے میں بد انتظامی کے الزامات لگتے رہے۔ صدر بننے کے ایک سال بعد ہی ان کے سیکرٹری جنرل مشیل زین روفینن نے کہا کہ بلاٹر کی غلط حکمت عملی کی وجہ سے فیفا کو مارکیٹنگ کے شعبے میں سو ملین ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ بلاٹر فیفا میں اپنے خلاف تحقیقات رکوانے میں کامیاب ہو گئے اور نتیجتاً مشیل زین روفینن کو فیفا سے نکال دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Bally
سیپ بلاٹر جرمن امیدوں پر پورا اترے
2000ء کے موسم گرما میں سیپ بلاٹر نے جرمن فٹ بال کے لیے ایک اہم کردار ادا کیا۔ اُس وقت فٹ بال کے عالمی کپ کے انعقاد کے حوالے سے جرمنی کی تمام تر امیدیں اُنہی سے وابستہ تھیں اور پھر انہوں نے 2006ء کے عالمی کپ کی میزبانی کے لیے جرمنی کے حق میں اعلان کیا۔ اس دوران بلاٹر اپنے عہدے کو مزید مضبوط کرنے کے لیے کام کرتے رہے اور جس کا نتیجہ 2002ء میں ان کے دوبارہ انتخاب کی صورت میں سامنے آیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Limina
مشرق وسطٰی کے ووٹ خریدنے کا الزام
فیفا کے قطر سے تعلق رکھنے والے خصوصی رکن محمد بن حمام کا شمار سیپ بلاٹر کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا۔ 2011ء میں بن حمام بلاٹر کے خلاف فیفا کی سربراہی کے لیے انتخاب بھی لڑنا چاہتے تھے تاہم رشوت خوری کے الزام کے بعد انہیں اپنی نامزدگی واپس لینا پڑی۔ اس کے بعد انہوں نے فیفا کی رکنیت سے بھی استعفی دے دیا تھا اور بعد میں فیفا نے بن حمام پر عمر بھر کی پابندی عائد کر دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Yusni
دو اہم شخصیات
جرمن فٹ بال کی ایک اہم شخصیت فرنز بیکن باؤر اور سیٹ بلاٹر کے ایک وقت میں بہت گہرے تعلقات تھے۔ انہیں 2014ء میں فیفا نے معطّل کر دیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے جرمنی کے لیے ورلڈ کپ کی میزبانی کے حصول کے لیے رشوت دی تھی۔ ان دونوں کی دوستی میں اس وقت دراڑ پڑی جب بیکن باؤر نے اپنی بدعنوانی کو تسلیم کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Weissbrod
بلاٹر اور دنیا کی اہم شخصیات
سیپ بلاٹر فیفا کی سربراہی کے دوران دنیا کی اہم ترین شخصیات سے ملتے رہے، جن میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، مختلف ممالک کے سربراہاں مملکت اور پوپ شامل ہیں۔ 2004ء میں وہ جنوبی افریقہ گئے اور نیلسن منڈیلا سے ملاقات کی۔ اس موقع پر انہوں نے منڈیلا سے 2010ء کے عالمی کپ کی میزبانی کا وعدہ بھی کیا۔ یہ براعظم افریقہ میں منعقد ہونے والا فٹ بال کا پہلا عالمی کپ تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/E. Risch
افریقہ اور ایشیا میں بلاٹر کی پرستش
سیپ بلاٹر نے اپنے اختیارات کا بھرپور طریقے سے استعمال کیا اور اس سے لطف اندوز بھی ہوئے۔ اس دوران وہ کبھی کبھار سرکاری مہمان بھی بننے۔ افریقہ اور ایشیا میں بہت زیادہ گرم جوشی سے ان کا استقبال کیا جاتا رہا۔ ان دونوں براعظموں میں انہیں مسیحا اور مدر ٹیریسا کا امتزاج سمجھا جاتا تھا۔ بلاٹر نے بڑی رقوم عطیہ کیں، جس کے بدلے میں ایک دیوتا کی طرح ان کی پرستش کی جاتی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Yusni
عقبی دروازے سے رخصت
امریکی تفتیشی ادارے ایف بی آئی کی جانب سے فیفا کے چند عہدیداروں کی خلاف رشوت ستانی کی تفتیش نے سیٹ بلاٹر کو عہدے چھوڑنے پر مجبور کیا۔ وہ ابھی اس تفتیش میں شامل نہیں کیے گئے ہیں۔ بلاٹر کا موقف ہے کہ رشوت یا بدعنوانی سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے نئے انڈکس میں پاکستان کی پوزیشن بھی 2019 کے مقابلے میں مزید خراب ہوئی ہے۔ 2019 میں پاکستان اس فہرست میں 32 پوائنٹس کے ساتھ 120 ویں نمبر پر رہا تھا۔ مگر 2020 میں ایک پوائنٹ کی مزید کمی کے بعد پاکستان کا سکور 100 میں سے صرف 31 رہا اور وہ عالمی سطح پر اب 124 ویں نمبر پر چلا گیا ہے۔
نئے گلوبل کرپشن انڈکس میں پاکستان کا حریف ہمسایہ ملک بھارت 100 میں سے 40 پوائنٹس کے ساتھ 86 ویں نمبر پر ہے۔
ماضی میں یورپ کے سب سے بڑے ڈرگ اسٹور کے نیٹ ورک ’شلیکر‘ کے مالک انتون شلیکر اور ان کے بچوں کو ایک جرمن عدالت نے جیل بھیج دیا ہے۔ پکچر گیلری میں دیکھیے پچاس ہزار سے زائد ملازمین پر مشتمل ’شلیکر ایمپائر‘ کیسے دیوالیہ ہوئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Puchner
ترقی کی پہلی سیڑھی
انتون شلیکر نے 1975 ء میں کرشہائم نامی علاقے میں اپنی پہلی ڈروگری مارکیٹ کھولی تھی۔ صرف دو ہی برسوں میں اس کی سو شاخیں کھل چکی تھیں۔ انتون نے نو سال بعد دعوی کیا تھا کہ ان کی ایک ہزار شلیکر شاپس ہیں۔
تصویر: AP
بیرون ملک
1987ء میں شلیکر نے جرمنی سے باہر اپنے قدم جمانے کی ابتدا کی۔ 2007ء میں شلیکر کا دائرہ یورپ کے تیرہ ملکوں تک پھیل چکا تھا اور اس میں کام کرنے والے ملازمین کی تعداد 52 ہزار تک پہنچ گئی تھی۔ پورے یورپ میں شلیکر کی تقریباً دس ہزار شاخیں تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
الزامات
دفتر استغاثہ نے شلیکر ڈروگری اسٹور ( ادویات اور عام اشیاء کی دکان) پر صرف یہ الزام عائد نہیں کیا کہ انہوں نے اپنی مالی معاملات چھپائے ہیں بلکہ تمام چھتیس مختلف واقعات میں شلیکر نے ایسے اثاثے بنائے ہیں، جنہیں دیوالیہ میں شامل ہونا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Murat
فرد جرم
تین سال تک اشٹٹ گارٹ شہر میں استغاثہ نے شلیکر کے خلاف تفتیشی عمل جاری رکھا اور پھر گزشتہ برس اپریل میں ان پر فرد جرم عائد کی گئی۔ فرد جرم کی دستاویز 270 صفحات پر مبنی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dap/M.Murat
عدالتی فیصلہ
جرمن شہر اشٹٹ گارٹ کی ایک عدالت نے 72 سالہ انتون شلیکر اور ان کے دو بچوں لارس اور مائیکے شلیکر کو قید اور ان کی بیوی کو جرمانے کی سزا سنائی ہے۔ انتون ’شلیکر ایمپائر‘ بہت محنت سے کھڑی کی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Warnack
اثاثے
ذرائع کے مطابق انتون شلیکر نے پچیس ملین یورو کے اثاثے بنائے ہیں۔ اس دوران ان کی اہلیہ، دونوں بچوں اور ان کے مالی معاملات کی نگرانی کرنے والے دو افراد کو بھی شامل تفتیش کیا گیا۔ ان پر بدعنوانی میں تعاون، دیوالیہ پن میں تاخیر اور فریب کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.-P. Strobel
شلیکر جوڑا اور بدعنوانی
1998ء میں اشٹٹ گارٹ کی ایک عدالت نے شلیکر جوڑے کو بدعنوانی کے ایک مقدمے میں دس ماہ قید کی معطّل سزا سنائی تھی کیونکہ انہوں نے اپنے ایک ملازم کو قانون کے مطابق تنخواہ ادا نہیں کی تھی۔ اس کے چند سال بعد شلیکر کی انتظامیہ بھی اس وقت تنقید کی زد میں آ گئی جب ان کی جانب سے ملازمین کی نگرانی کے لیے غیر قانونی طور پر کیمرے نصب کیے گئے تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa
سزا
دیوالیہ پن سے منسلک اگر جرائم بھی ہوں تو اس کی سزا پانچ سال تک کی قید ہے جبکہ سنیگن جرم کی صورت میں سزا دس سال بھی ہو سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Försterling
شلیکر بند
شلیکر کا شمار یورپ کی بڑی ڈروگری مارکیٹ میں ہوتا تھا۔ اس گروپ کی جانب جنوری 2012ء نے دیوالیہ پن کی درخواست جمع کروائی گئی تھی۔ شلیکر کو بچانے کی کوشش بے نتیجہ رہی۔ جون 2012ء میں شلیکر بند کر دی گئی تھی اور جرمنی اور یورپ کے دیگر ممالک میں پچاس ہزار سے زائد افراد بے روزگار ہو گئے تھے۔
ٹرانسپیرنسی کے اس انڈکس میں دنیا کے ایک سو اسی ممالک کی درجہ بندی کی گئی ہے۔ اس گلوبل سول سوسائٹی گروپ کی سربراہ ڈیلیا فیریرا رُوبیو ہیں۔ انہوں نے اس موقع پر ایک بیان میں کہا ہے کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا دنیا کے تمام ممالک کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بن چکی ہے۔
ان کے مطابق کورونا کی وبا کی روک تھام اور بدعنوانی کے باہمی ربط کے حوالے سے دیکھا گیا ہے کہ دنیا کے زیادہ کرپٹ ممالک کے مقابلے میں سب سے کم کرپٹ ریاستوں کے لیے اس عالمی وبا کے خلاف کامیاب جدوجہد کرنا زیادہ آسان ثابت ہوا۔
پاکستان کے بارے ميں دس منفرد حقائق
دنيا کے ہر ملک و قوم کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی ميدان ميں شہرت کے افق تک پہنچا جائے۔ پاکستان بھی چند منفرد اور دلچسپ اعزازات کا حامل ملک ہے۔ مزید تفصیلات اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
بلند ترین مقام پر اے ٹی ايم
دنيا بھر ميں سب سے زيادہ اونچائی پر اے ٹی ايم مشين پاکستان ميں ہے۔ گلگت بلتستان ميں خنجراب پاس پر سطح سمندر سے 15,300 فٹ يا 4,693 ميٹر کی بلندی پر واقع نيشنل بينک آف پاکستان کے اے ٹی ايم کو دنيا کا اونچا اے ٹی ايم ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
سب سے کم عمر ميں نوبل انعام
سب سے کم عمر ميں نوبل امن انعام ملنے کا اعزاز بھی ايک پاکستانی کو حاصل ہوا۔ ملالہ يوسف زئی کو جب نوبل انعام سے نوازا گيا، تو اس وقت ان کی عمر صرف سترہ برس تھی۔ ملالہ سے پہلے ڈاکٹر عبداسلام کو سن 1979 ميں نوبل انعام کا حقدار قرار ديا گيا تھا۔
تصویر: Reuters/NTB Scanpix/C. Poppe
سب سے بلند شاہراہ
شاہراہ قراقرم دنيا کی بلند ترين شاہراہ ہے۔ یہ دنیا کے عظیم پہاڑی سلسلوں قراقرم اور ہمالیہ کو عبور کرتی ہوئی چین کے صوبہ سنکیانگ کو پاکستان کے شمالی علاقوں سے ملاتی ہے۔ درہ خنجراب کے مقام پر اس کی بلندی 4693 میٹر ہے۔
تصویر: imago
فٹ بالوں کا گڑھ - سیالکوٹ
سيالکوٹ اور اس کے گرد و نواح ميں سالانہ بنيادوں پر چاليس سے ساٹھ ملين فٹ باليں تيار کی جاتی ہيں۔ يہ فٹ بالوں کی عالمی پيداوار کا ساٹھ سے ستر فيصد ہے۔ خطے ميں تقريباً دو سو فيکٹرياں فٹ باليں تيار کرتی ہيں اور يہ دنيا بھر ميں سب سے زيادہ فٹ بال تيار کرنے والا شہر ہے۔
تصویر: Reuters
آب پاشی کا طويل ترين نظام
کنال سسٹم پر مبنی دنيا کا طويل ترين آب پاشی کا نظام پاکستان ميں ہے۔ يہ نظام مجموعی طور پر چودہ اعشاريہ چار ملين ہيکڑ زمين پر پھيلا ہوا ہے۔
تصویر: Imago/Zuma/PPI
ايمبولينسز کا سب سے بڑا نيٹ ورک
ايمبولينسز کا سب سے بڑا نيٹ ورک پاکستان ميں ہے۔ يہ اعزاز غير سرکاری تنظيم ايدھی فاؤنڈيشن کو حاصل ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images/A. Hassan
سب سے کم عمر کرکٹر
سب سے کم عمر ميں انٹرنيشنل کرکٹ کھيلنے کا اعزاز بھی ايک پاکستانی کرکٹر کو حاصل ہے۔ حسن رضا کی عمر صرف چودہ برس اور 227 دن تھی جب انہوں سن 1996 ميں فيصل آباد ميں زمبابوے کے خلاف پہلا بين الاقوامی ميچ کھيلا۔
تصویر: Getty Images
کرکٹ ميں سب سے تيز رفتار گيند
کرکٹ کی تاريخ ميں سب سے تيز رفتار گيند کرانے کا اعزاز شعيب اختر کو حاصل ہے۔ اختر نے سن 2003 ميں انگلينڈ کے خلاف ايک ميچ کے دوران 161.3 کلوميٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ايک گيند کرائی۔
تصویر: AP
سب سے کم عمر سول جج
محمد الياس نے سن 1952 ميں جب سول جج بننے کے ليے امتحان پاس کيا، تو اس وقت ان کی عمر صرف بيس برس تھی۔ انہيں اس شرط پر امتحان دينے کی اجازت دی گئی تھی کہ وہ امتحان پاس کرنے کی صورت ميں بھی 23 سال کی عمر تک پہنچنے سے قبل ملازمت نہيں کريں گے۔ تاہم بعد ميں نرمی کر کے انہيں آٹھ ماہ بعد بطور سول جج کام کی اجازت دے دی گئی۔ محمد الياس سب سے کم عمر سول جج تھے۔