1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گلگت بلتستان پر پاکستانی اقدام سے بھارت شدید برہم

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو نیوز، نئی دہلی
2 نومبر 2020

بھارت کا کہنا ہے کہ پاکستان نے گلگت بلتستان پر’’اپنے غیر قانونی قبضے کو مخفی رکھنے کے لیے‘‘ اسے اپنا پانچواں صوبہ بنانے کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان نے بھارت کے اس بیان کو ایک بار پھر لغو بتا کر مسترد کر دیا ہے۔

Flagge Pakistan und Indien
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Sharma

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنائے جانے کے اعلان کے محض چند گھنٹے بعد ہی بھارت نے اپنے سخت رد عمل میں اسے مسترد کرتے ہوئے کہا،’’بھارت کے اس علاقے پر پاکستان غیر قانونی طور پر قابض ہے اور اس میں کسی بھی طرح کی تبدیلی کرنے کے بجائے اسے فوری طور پر ان علاقوں کو خالی کر دینا چاہیے۔‘‘

نئی دہلی میں وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سری واستوا نے علاقے میں کسی بھی طرح کی تبدیلی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کا اس اقدام  سے پاکستان نے، ’’علاقے پر اپنے غیر قانونی اور زبردستی قبضے کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم وہاں گزشتہ 70 برسوں سے ہونے والی انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں، استحصال اور آزادی سے انکار کو وہ مخفی نہیں رکھ سکتا۔‘‘

بھارتی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں مزید کہا، ’’ہم پاکستان سے اپنے زیر قبضہ تمام علاقوں کو فوری طور پر خالی کرنے کو کہتے ہیں۔ میں ایک بار پھر تاکید کرتا ہوں کو مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر اور لداخ  سمیت گلگت بلتستان کے تمام علاقے بھارت کا جزء لاینفک ہیں۔ پاکستان نے ان علاقوں پر زبردستی قبضہ کر رکھا ہے جس پر اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔‘‘

گزشتہ روز پاکستانی وزير اعظم عمران خان نے گلگت بلتستان کے دورے کے دوران کہا تھا کہ ان کے آنے کی ایک اہم وجہ اس خطے کو پاکستان کے پانچویں صوبے کے طور پر اعلان کرنا ہے۔ اس سے قبل پاکستانی سپریم کورٹ نے گلگت بلتستان کی حکومت سے متعلق  سن 2018 کے آرڈر میں ترمیم کی اجازت دی تھی تاکہ وہاں عام انتخابات کا راستہ ہموار ہو سکے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ یہ انتخابات اس ماہ کی 15 تاریخ کو کرائے جائیں گے۔

دیامیر بھاشا ڈیم، توقعات اور خدشات

04:00

This browser does not support the video element.

ماضی میں جب بھی پاکستان نے گلگت بلتستان کے حوالے سے کوئی نیا اعلان کیا تو بھارت تقریبا اسی انداز میں سخت رد عمل کا اظہار کرتا رہا ہے۔ لیکن پاکستان اسے بھارت کی لغو بیانی بتا کر مسترد کرتا رہا ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ کے تازہ بیان کو بھی پاکستانی دفتر خارجہ نے غیر ذمہ دارانہ اور غیر ضروری بتا کر مسترد کر دیا۔

پاکستانی دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا، ''اس مسئلے پر بھارت کی قانونی، اخلاقی اور تاریخی اعتبار سے کوئی مسلمہ حیثیت ہی نہیں ہے۔ بھارت کے جھوٹے دعوے نہ تو حقیقت بدل سکتے ہیں اور نہ ہی بھارت کے  زیر قبضہ کشمیر میں کیےگئے غیر قانونی اقدامات  اور وہاں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں سے نظر پوشی ہو سکتی ہے۔‘‘

پاکستانی دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ وہ کشمیر کے مسئلے پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اپنے دیرینہ موقف پر قائم ہے،’’بھارت جموں و کشمیر کے ایک بڑے علاقے پر جابرانہ طور پر قابض ہے اور اسے چاہیے کہ ان علاقوں کو وہ خالی کر دے تاکہ کشمیری عوام اپنے حق خود ارادیت استعمال کر سکیں۔ کشمیر کا دیرپا حل اسی صورت میں ممکن ہے جب کشمیری عوام اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہونے والی رائے شماری میں حصہ لے کر خود اپنی قسمت کا فیصلہ کریں۔‘‘ 

  

 بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر ایک متنازعہ مسئلہ ہے۔ لداخ سمیت خطہ کشمیر کا ایک بڑا حصہ بھارت کے زیر انتظام ہے جبکہ گلگت بلتستان سمیت کشمیر کے بعض علاقے پاکستان کے زیر انتظام ہیں۔ لداخ کے بعض علاقوں پر چین کا بھی دعوی ہے جہاں لائن آف ایکچول کنٹرول پر بھارت اور چین کے درمیان گزشتہ چند ماہ سے حالات کشیدہ ہیں۔

بھارت میں مودی کی حکومت نے گزشتہ برس آنا فانا کشمیر کو حاصل نہ صرف خصوصی آئینی اختیارات ختم کر دیے تھے بلکہ اس کا ریاستی درجہ ختم کر کے اسے مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنا دیا تھا۔ بھارتی حکومت نے عوامی رد عمل سے بچنے کے لیے کشمیر کے تمام بڑے رہنماؤں کو گرفتار کر لیا تھا اور کشمیر کے گلی کوچوں تک میں بڑی تعداد میں سکیورٹی فورسز کا پہرہ لگا دیا تھا۔ فون، موبائل اور انٹرنیٹ سروسز کو معطل کرتے ہوئے وادی کشمیر کے تقریبا تمام علاقوں میں کرفیو جیسی بندشیں عائد کر دی گئی تھیں۔

کشمیر کے ہند نواز بیشتر سیاسی رہنماؤں کو اب رہا کر دیا گيا ہے تاہم اب بھی انسانی حقوق کے کارکنان، دانشور، وکلاء اور اس جیسے دیگر ہزاروں کارکنان بھارت کی مختلف جیلوں میں قید ہیں۔ اب بھی انٹرنیٹ، میڈيا اور دیگر ذرائع ابلاغ پر جزوی بندشیں عائد ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں