’گلہری! احتیاط کیا کرو، دوبارہ پھر کبھی ایسا نہ کرنا‘
29 جون 2019
جرمنی کے شہر ڈورٹمنڈ کی ایک سڑک پر ایک گٹر کے فولادی ڈھکن کے ایک سوراخ میں پھنس جانے والی ایک گلہری کی جان بچانے کے لیے ایک خصوصی ریسکیو آپریشن کیا گیا۔ ایک مقامی شفاخانہ حیوانات کے مطابق یہ گلہری اب تیزی سے روبصحت ہے۔
اشتہار
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی ڈورٹمنڈ سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق گزشتہ جمعرات کے روز اس شہر میں پانی کی نکاسی کے زیر زمین نظام کے ایک حصے میں سڑک پر بنے ایک مین ہول کے فولادی ڈھکن کے ایک سوراخ میں ایک ایسی گلہری کا پتہ چلایا گیا تھاجس کا سر تو اس سوراخ میں پھنسا ہوا تھا اور باقی ماندہ دھڑ شاید ڈھکن کے نیچے ہوا میں لٹک رہا تھا۔ یہ گلہری نہ جانے کب سے وہاں اس اذیت ناک صورت حال کا شکار تھی۔
ابوظہبی: جرمن ڈاکٹر کے زیر انتظام چلنے والا شاہینوں کا ہسپتال
متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابوظہبی میں ایک جرمن ماہر حیوانات مارگِٹ میولر شاہینوں کے ایک ہسپتال کی سربراہ ہیں۔ وہ ایسے پرندوں کا خیال رکھتی ہیں جو اس عرب ملک کے مردوں کا بہترین مشغلہ اور تفریح کا ذریعہ ہیں۔
تصویر: DW/M. Marek
ابوظہبی میں شاہینوں کا ہسپتال
ہسپتال میں داخل ہوتے ہی آپ کا استقبال شاہین کا لکڑی سے بنا ایک بڑا مجسمہ کرتا ہے جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ جگہ شکاری پرندوں کی آماجگاہ ہے۔
تصویر: DW/M. Marek
پروں والے مریضوں کا کمرہ انتظار
یہ مریض 20 سینٹی میٹر لمبے لکڑی کے ایک ایسے ڈنڈے پر بیٹھے ہیں جس پر مصنوعی گھاس بھی لپٹی ہے۔ ان کی آنکھوں پر چمڑے کا بنا ایک خول بھی چڑھا رہتا ہے۔
تصویر: DW/M. Marek
ہسپتال کا کاروبار چمکتا ہوا
شاہینوں کے اس ہسپتال میں سالانہ قریب 11 ہزار پرندوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ 1999ء میں اس ہسپتال کے قیام سے لے کر یہ اب تک قریب 75 ہزار شاہینوں کا علاج کیا جا چکا ہے۔
تصویر: DW/M. Marek
شاہینوں کی ماہر
اماراتی باشندے جرمنی سے تعلق رکھنے والی ماہر حیوانات مارگِٹ میولر کو ’’ڈوکٹورا‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ 49 سالہ میولر 2001ء سے اس ہسپتال کی سربراہ ہیں۔ شاہینوں کی یہ ماہر اب صرف متحدہ عرب امارات ہی نہیں بلکہ اپنے شعبے میں دنیا بھر میں شہرت حاصل کر چکی ہیں۔
تصویر: DW/M. Marek
چھوٹے چھوٹے مریضوں کے لیے چھوٹی مشینیں
یہ مشینیں ابتدائی طور پر بچوں کے ہسپتال سے لی گئیں کیونکہ یہ پرندوں کے لیے مناسب سائز کی ہیں۔ مثال کے طور پر قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کی نگہداشت کے لیے استعمال ہونے والے یہ انکیوبیٹر۔
تصویر: DW/M. Marek
ایک شاہین کی سرجری
یہ شاہین آپریشن ٹیبل پر سکون سے پڑا ہے۔ سرجری کرنے والے آلات بنیادی نوعیت کے ہیں جو اس پرندے کے آپریشن کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔
تصویر: DW/M. Marek
مصنوعی پر
ہسپتال کا ایک کمرہ متبادل پروں سے بھرا ہوا ہے جس میں ان پروں کو سائز اور رنگ کے حساب سے ترتیب میں رکھا گیا ہے۔ اگر کسی باز یا شاہین کا کوئی پر ٹوٹ جائے تو اس کی جگہ ان مصنوعی پروں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک نئے پر کو گِر جانے والے پر کی جگہ لگا دیا جاتا ہے اور اس طرح یہ پرندہ پھر سے پرواز کے قابل ہو جاتا ہے۔ جب اصل پر دوبارہ نکل آتا ہے تو مصنوعی پر کو ہٹا دیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/M. Marek
جرمنی سے متحدہ عرب امارات تک
مارگِٹ میولر جرمن شہر اُلم کے قریب پیدا ہوئیں اور جرمنی ہی میں انہوں نے وٹرنری کی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے اپنا ڈاکٹریٹ کا تھیسس فالکن یا شاہینوں کے پروں کی ایک بیماری پر لکھا۔ اس کے بعد وہ عملی تربیت کے لیے دبئی چلی گئیں۔ ان کے کام کو اس حد تک پسند کیا گیا کہ انہیں ابوظہبی میں شاہینوں کے علاج کا ایک ہسپتال بنانے کی آفر کر دی گئی۔
تصویر: DW/M. Marek
قیمتی پرندے
ایک فالکن کی انڈواسکوپی پر قریب 70 یورو کا خرچ آتا ہے یہ رقم پاکستانی ساڑھے آٹھ ہزار روپے کے قریب بنتی ہے۔ بڑے آپریشن ظاہر ہے کہ بہت زیادہ مہنگے ہوتے ہیں۔ لہذا شاہین یا فالکن پالنا کوئی سستا شوق نہیں ہے۔جو لوگ باز رکھتے ہیں انہیں یہ دھیان رکھنا چاہیے کہ اس پرندے کے علاج اور اس کا خیال رکھنے پر 300 سے 400 یورو ہر مہینے درکار ہوتے ہیں۔
تصویر: DW/M. Marek
آپ کا پاسپورٹ پلیز!
متحدہ عرب امارات میں ہر باز یا شاہین کا الگ سے پاسپورٹ بھی ہوتا ہے جس میں اس پرندے کے بارے میں اہم معلومات اور مالک کا نام درج ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ پرندے کے جسم پر لگائی گئی مائیکرو چپ کا 13 حروف پر مشتمل ایک کوڈ بھی درج ہوتا ہے۔ تاہم اس پاسپورٹ میں تصویر موجود نہیں ہوتی۔
تصویر: DW/M. Marek
سیاحوں کے لیے ایک کشش
2007ء کے بعد سے سیاح بھی اس ہسپتال کا دورہ کرتے رہتے ہیں۔ اس ہسپتال میں ایک میوزیم بھی قائم ہے جس سے سیاحوں کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ پرندہ خلیجی ممالک میں اتنا اہم کیوں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فالکن ہسپتال ابوظہبی کی 10 اہم سیاحتی دلچسپیوں میں شامل ہے۔
تصویر: DW/M. Marek
11 تصاویر1 | 11
یہ گلہری زیر زمین آبی نظام سے باہر نکل کر زمین کے اوپر آنا چاہتی تھی اور اس دوران اس کا سر گٹر کے ڈھکن کے تنگ سوراخوں میں سے ایک میں پھنس کر رہ گیا تھا۔ اس معصوم سے جانور کی تکلیف اور اس کی جان کو درپیش خطرے کا علم ہونے پر فوراﹰ مقامی فائر بریگیڈ کو اطلاع کر دی گئی تھی۔ ریسکیو کارکنوں نے اس جانور کو گٹر کے ڈھکن سے باہر نکالنے کی پوری کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکے۔
پھر فیصلہ یہ کیا گیا کہ گٹر کے اس فولادی ڈھکن کو اس میں پھنسی گلہری سمیت اٹھا کر جانوروں کے کسی ہسپتال میں لے جایا جائے۔ شفاخانہ حیوانات پہنچائے جانے پر ڈاکٹروں نے پہلے تو اس گلہری کو ٹیکہ لگا کر بے ہوش کیا اور پھر بغیر اس ڈھکن کو کاٹے ہوئے لیکن بڑی احتیاط سے اس گلہری کو کھینچ کر سوراخ سے باہر نکال لیا گیا۔ اس دوران بہت زیادہ طبی احتیاط کے باوجود اس گلہری کی گردن پر معمولی سے زخم بھی آ گئے تھے۔
اس جانور کا زندہ بچا لیا جانا وہاں موجود ہر کسی کے لیے بے تحاشا خوشی کا باعث بنا۔ پھر اس طبی کامیابی پر متعلقہ شفا خانہ حیوانات کی ایک خاتون کارکن نے جمعے کے روز بتایا، ''گلہری اب روبصحت ہے اور اس کی مکمل نگہداشت کی جا رہی ہے۔‘‘ متعلقہ شفاخانہ حیوانات کے ڈاکٹر کی اس میڈیکل اسسٹنٹ نے بعد ازاں یہ بھی کہا کہ خوشی اس بات کی ہے کہ اس گلہری کی جان بچا لی گئی۔ اس خاتون کے مطابق اس گلہری کو احتیاط کرنا چاہیے تھی لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ ''امید ہے وہ دوبارہ پھر کبھی ایسا نہیں کرے گی۔‘‘
م م / ع ح / ڈی پی اے
آٹھ جانور جو سن 2019 میں ناپید ہو سکتے ہیں
ان آٹھ جانور کے ناپید ہونے کی بڑی وجہ غیرقانونی شکار یا ان کے قدرتی ماحول کی تباہی خیال کی گئی ہے۔ اگر عملی اقدامات نہ کیے گئے تو یہ صفحہ ہستی سے مٹ سکتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Karumba
شمالی سفید گینڈے
گزشتہ برس افریقی ملک سوڈان میں ایک سفید گینڈے کی ہلاکت کو نہایت اہمیت حاصل ہوئی تھی۔ یہ گینڈوں کی اِس نسل کا آخری معلومہ نَر جانور تھا۔ اس طرح کسی حد تک یہ نسل معدوم ہو کر رہ گئی ہے۔ بعض سائنسدان آئی وی ایف ٹیکنالوجی یا مصنوعی طریقے سے اس کی افزائش نسل کی کوشش میں ہیں۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو سکا تو یہ نسل اپنے اختتام کو پہنچ جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Karumba
جنوبی چینی ٹائیگر
جنوبی چین میں پایا جانے والا ٹائیگر بھی اپنے معدوم ہونے کے قریب ہے۔ سن 1970 کے بعد جنوبی چینی جنگل میں اس جانور کو نہیں دیکھا گیا۔ مختلف چڑیا گھروں میں ان کی تعداد اسی کے قریب ہے۔ بعض حیوانات کے ماہرین نے اس نسل کو ناپید قرار دے دیا ہے لیکن چین کی تنظیم ’ سیو چینی ٹائیگر‘ کا موقف ہے کہ اس جانور کو بچانے کی کوششیں رنگ لائیں گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Joe
آمور چیتا
خیال کیا جاتا ہے کہ اس نسل کے چیتے اس وقت دنیا بھر میں 80 سے بھی کم رہ گئے ہیں۔ اس چیتے کا علاقہ جنوبی چین، شمالی روس اور جزیرہ نما کوریا ہے۔ اس چیتے کے ناپید ہونے کی وجہ غیرقانونی شکار اور جنگلاتی علاقے کی کٹائی خیال کی جاتی ہے۔ یہ چیتے اس وقت دونوں کوریائی ممالک کے غیر عسکری علاقے میں دیکھے گئے ہیں۔ یہ علاقہ جنگلی حیات کی افزائش کا باعثث بن چکا ہے۔
تصویر: AP
چپٹی تھوتھنی والی وہیل مچھلی
سمندری حیات میں چپٹی تھوتھنی والی وہیل مچھلی معدوم ہونے کے قریب خیال کی جاتی ہے۔ مارچ سن 2018 تک اس کی معلوم تعداد پندرہ خیال کی گئی تھی۔ بظاہر اس کا براہ راست شکار نہیں کیا جاتا لیکن ایک اور نایاب مچھلی ٹوٹوابا کے پکڑنے والے جال میں پھنس کر انسانی ہاتھوں تک پہنچتی رہی ہے۔ ان دونوں نایاب ہوتی مچھلیوں کا علاقہ خلیج کیلیفورنیا ہے۔ اس کے غیرقانونی شکار کی تمام کوششیں اب تک ناکامی سے ہمکنار ہوئی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/WWF/Tom Jefferson
سیاہ گینڈا
ماہرین حیوانات کا خیال ہے کہ سیاہ گینڈے کا مستقبل بھی سفید گینڈے جیسا ہے۔ اس کے تحفظ کی کوششیں بھی رنگ نہیں لا سکی ہیں۔ اس معدوم ہوتے جانور کی مجموعی تعداد پانچ ہزار کے لگ بھگ خیال کی جاتی ہے۔ اس سیاہ گینڈے سے تعلق رکھنے والی تین دوسری قسمیں پوری طرح مِٹ چکی ہیں۔ سیاہ گینڈے بھی غیرقانونی شکار کی وجہ سے معدوم ہو رہے ہیں۔ اس کے سینگ کی مانگ عالمی بلیک مارکیٹ میں بہت زیادہ ہے۔
تصویر: Imago/Chromorange
سرخ بھیڑیا
سرخ بھیڑیے کی نسل بھی ختم ہونے کے قریب پہنچ گئی ہے۔ اس نسل کے تیس جانور باقی بچے ہیں۔ اس نسل کی افزائش بھورے اور امریکی بھیڑیے کے ملاپ سے ممکن ہوتی ہے۔ امریکی بھیڑیے کو سخت حفاظتی کنٹرول کے باعث معدوم ہونے سے بچا لیا گیا ہے۔ سرخ بھیڑیا ایک شرمیلا جانور ہے اور اس کا علاقہ جنوب مشرقی امریکا اور فلوریڈا سمجھے جاتے ہیں۔
تصویر: Creative Commons
ساؤلا
اس جانور کی دریافت سن 1992 میں ہوئی تھی اور اس کو ایشیائی ’یک سنگھا‘ یا یونی کورن قرار دیا جاتا ہے۔ ریسرچرز نے ویتنام اور لاؤس کے جنگلاتی علاقوں میں صرف چار ساؤلا کی دستیابی کی تصدیق کی ہے۔ اس نسل کو بھی غیر قانونی شکار اور جنگلوں کی کٹائی کا سامنا ہے۔ مجموعی طور پر جنگلوں اور چڑیاگھروں میں صرف ایک سو ساؤلا کی موجودگی کا اندازہ لگایا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مشرقی گوریلا
زمین کی اعلیٰ مخلوق یعنی انسانوں کے قریب ترین بندروں کی نسل مشرقی گوریلا شکاریوں کی کارروائیوں اور جنگلاتی علاقوں کے کٹاؤ کی وجہ سے ناپید ہونے کے قریب ہے۔ پہاڑی علاقوں میں رہنے والے گوریلا کی تعداد نو سو سے بھی کم ہو چکی ہے جب کہ پہاڑی ڈھلوانی جنگلات میں گوریلا کی ایک ذیلی نسل کے اڑتیس سو جانور باقی رہ گئے ہیں۔ ان کو محفوظ رکھنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن ابھی مثبت نتائج سامنے آنا باقی ہیں۔