گمنام انسانی باقیات کی نمائش، امریکی میوزیم تنقید کی زد میں
سحر بلوچ
31 اگست 2025
ایک امریکی میوزیم میں انسانی ڈھانچوں کی نمائش نے اخلاقی بحث چھیڑ دی ہے۔ اس میں ایک بڑی تعداد ان سماجی کارکنان اور تحقیق سے جڑے لوگوں کی ہے، جو کہتے ہیں کہ ان ڈھانچوں کو انٹرٹینمنٹ کی خاطر نہیں رکھنا چاہیے۔
تصویر: Athit Perawongmetha/REUTERS
اشتہار
کئی سالوں تک ایک گمنام شخص کی آنتوں کو امریکی شہر فلاڈیلفیا کے ایک میڈیکل میوزیم میں نمائش کے لیے رکھا گیا تھا۔ اس نمائش میں اس شخص کے نام کے پہلے اور آخری ہندسوں جے ڈبلیو کے علاوہ کچھ بھی واضح نہیں کیا گیا تھا۔
پالیسی میں تبدیلی
دو سال تک یہ تنازعہ چلتا رہا کہ انسانی باقیات کی اخلاقی دائرے میں رہتے ہوئے کیسے نمائش کی جائے؟ تاہم اب مُٹر میوزیم (Mutter) نے اعلان کیا کہ میوزیم نے شناخت پوشیدہ رکھنے کے حوالے سے اپنی پالیسی کو بدل دیا ہے۔ اس کے بعد عطیہ دہندہ جوسف ولیمز کی آنتوں کی نمائش ان کے جسمانی ریکارڈ کے ساتھ ساتھ یہاں نمائش کے لیے رکھی گئی ہے اور ساتھ ہی یہ ان کی زندگی کی دلچسپ کہانی کو بھی عیاں کرتی ہے۔ اس نئی پالیسی کی ذریعے، میوزیم صرف عطیہ دہندگان سے عطیہ وصول کرے گی یا ان کی اگلی نسلوں سے، تاکہ ان کی باقاعدہ طور پر شناخت کی جاسکے۔
میوزیم کی سینیئر ڈائریکٹر سارہ رے نے کہا، ''مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ہمیں انسانی باقیات اور ڈھانچوں کی نمائش کرنی چاہیے یا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم کیسے ان باقیات اور ان سے جُڑے انسانوں کی کہانیوں سے انصاف کرتے ہیں۔‘‘
نئی پالیسی کی ذریعے، میوزیم صرف عطیہ دہندگان سے عطیہ وصول کرے گیتصویر: Antiquity/Cover Images/picture alliance
تنازعہ کیوں پیدا ہوا؟
2023 میں میوزیم کی انتظامیہ کی تبدیلی کے بعد مُٹر نے ایک پوسٹ مارٹم پراجیکٹ شروع کیا۔ اس کے ذریعے پہلے سے موجود انسانی باقیات کا معائنہ، اور اس بات کو زیرِ بحث لانا تھا کہ آیا انسانی باقیات کو اگر دکھایا جائے تو اس کا اخلاقی دائرہ کیا ہونا چاہیے؟ اس دوران میوزیم نے ناصرف 110,000 صارفین پر مشتمل اپنے یوٹیوب چینل سے سو سے زائد ویڈیوز ہٹادیں بلکہ ایک ڈیجیٹل نمائش کو بھی ہٹا دیا۔
مُٹر کی سابق ڈائریکٹر کیٹ کوئن نے اس منصوبے کو شروع کیا تھا۔ کوئن نے اس موقع پر کہا تھا، ''ہمارا مقصد میوزیم کو ڈرامائی انداز میں تبدیل کرنا نہیں تھا بلکہ ایک بات چیت کا عمل شروع کرنا تھا۔ جب یوٹیوب سے ویڈیوز ہٹائی گئیں تو بہت سے داخلی معاملات پبلک میں آگئے۔‘‘
اس تنازعہ کے نتیجے میں میوزیم کی سالانہ ہالووین پارٹی بھی منسوخ کردی گئی، جس کا ردعمل سخت اور جلد دیکھنے کو ملا۔ میوزیم کے ایک سابق ڈائریکٹر نے امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل میں اپنے کالم میں ''کینسل کلچر‘‘ کی مذمت کرتے ہوئے ان ''گنے چنے اشرافیہ‘‘ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جو ان کے بقول میوزیم کے مستقبل سے کھیل رہے ہیں۔ اس سب کے بعد ایک آن لائن درخواست دائر کی گئی۔ ''پروٹیکٹ مُٹر‘‘ نامی اس پٹیشن پر سابق ڈائریکٹر کوئن کو ہٹانے کے لیے 35000 لوگوں نے دستخط کئے۔
اس تنازعہ کے نتیجے میں میوزیم کی سالانہ ہالووین پارٹی بھی منسوخ کردی گئیتصویر: Antiquity/Cover Images/picture alliance
ڈی لیون نامی اینتھروپولوجسٹ نے کہا کہ میوزیم جانے والے افراد بھی اب انسانی باقیات کی نمائش پر سوالات اٹھا رہے ہیں، ''کیا جن لوگوں کی نمائش کی جا رہی ہے، وہ اس مجموعی کلیکشن کا حصہ بننا چاہتے بھی ہیں یا نہیں؟ یا ان کے ڈھانچے کا لوگوں کی 'انٹرٹینمنٹ‘ کے لیے استحصال کیا جارہا ہے؟‘‘
مُٹر میوزیم کی تاریخ
1863 میں قائم ہونے والا مُٹر میوزیم دراصل مقامی سرجن تھومس مُٹر کی ذاتی کوششوں سے وجود میں آیا تھا۔ یہاں ایک جامع طِبی لائبریری ہے، جس میں انسانی کھوپڑیاں، جلد کی مختلف بیماریوں اور ویکس ڈھالنے کے طریقہ کار کے ساتھ ساتھ طبی آلات اور بہت کچھ شامل کیا گیا ہے۔ 2020 میں ایک شخص نے دل کی پیوندکاری کے بعد اپنا پرانا بڑا دل بھی اسی میوزیم کو دیا تھا۔ اسی کے ساتھ 139 انسانی کھوپڑیاں رکھی ہوئی ہیں جو انیسوی صدی کے آسٹریا کے ایک علم الاعضا کے ماہر (یعنی اناٹمسٹ) نے جمع کی تھیں۔
اشتہار
میوزیم کے مستقبل پر سوال
کوئن کو اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا اور میوزیم کی نئی ٹیم نے یوٹیوب سے ہٹائی جانے والی 80 فیصد سے زیادہ ویڈیوز بحال کردی ہیں۔ لیکن اب بھی میوزیم کے مستقبل سے متعلق سوال اٹھ رہے ہیں۔ جہاں سماجی کارکن کہتے ہیں کہ اس میوزیم میں انسانی باقیات کی بغیر اجازت نمائش نہیں کرنی چاہیے وہیں کچھ کا خیال ہے کہ یہ نمائش جاری رکھنی چاہیے تاکہ انسان اپنا ماضی یاد رکھتے ہوئے مستقبل کا سوچ سکے۔
ٹیکسلا، انسانی تاریخ کا عظیم ورثہ
ضلع راولپنڈی کی تحصیل ٹیکسلا میں اسی نام کا قدیم شہر دارالحکومت اسلام آباد سے بتیس کلومیٹر شمال مغرب میں واقع ہے۔ ٹیکسلا میں زمانہ قبل ازمسیح کی عظیم باقیات یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں بھی شامل ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
نازک لیکن تاحال محفوظ
یہ تصویر ماہرین آثار قدیمہ کو موہڑہ مرادو کے ایوان مجلس کے کمرہ نمبر نو سے ملنے والے ایک ایسے سٹوپا کی ہے، جو ہے تو چونا مٹی کا بنا ہوا لیکن جو صدیاں گزر جانے کے باوجود ابھی بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔ اسی خانقاہ سے ماہرین کو چونا مٹی کے بنے ہوئے مجسمے بھی ملے۔ موہڑہ مرادو سے ملنے والے دیگر نوادرات میں کھانے پینے کے برتن، گھریلو استعمال کا سامان، مختلف اوزار اور تانبے کے برتن بھی شامل ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
ٹیکسلا میوزیم
ٹیکسلا میوزیم پاکستان کے خوبصورت ترین عجائب گھروں میں سے ایک ہے۔ ہری پور روڈ پر واقع اس میوزیم کا نقشہ لاہور کے میو اسکول آف آرٹس (موجودہ نیشنل کالج آف آرٹس) کے پرنسپل سلیوان نے تیار کیا تھا اور اس کی بنیاد برٹش انڈیا کے وائسرائے لارڈ چیمسفورڈ نے رکھی تھی۔ اس میوزیم میں ٹیکسلا سے دریافت شدہ 700 سے زائد نوادرات محفوظ ہیں لیکن عجائب گھر کے اندر فوٹوگرافی کی اجازت نہیں ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
سِرکپ
سِرکپ شہر کی تاریخی باقیات ٹیکسلا میوزیم سے قریب دو کلومیٹرکے فاصلے پر ہیں۔ دوسری صدی قبل ازمسیح میں باختر کے یونانی ٹیکسلا پر حملہ آور ہوئے تو موریہ سلطنت ختم کر کے انہوں نے اپنی حکومت قائم کی اور ایک نیا شہر سِرکپ آباد کیا۔ یہ شہر شطرنج کی بساط کی طرز پر آباد کیا گیا تھا۔ سیدھی گلیوں اور بازار کے باعث اس کے کھنڈرات بھی بہت منفرد ہیں۔ یہ شہر ایک ایسی فصیل کے اندر آباد تھا، جس میں چار دروازے تھے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
مختلف نام
ٹیکسلا کا قدیم شہر دریائے سندھ اور دریائے جہلم کے درمیانی علاقے میں واقع ہے۔ سنسکرت میں یہ تکشاسلا اور مقامی طور پر تاکاسلہ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یونانیوں اور رومیوں نے اسے ٹیکسلا کہا۔ یہ شہر زمانہ قدیم کے تین اہم تجارتی راستوں کے سنگم پر واقع ہونے کی وجہ سے ایک بڑا تجارتی مرکز تھا۔ جنوبی ہند، مغربی اور وسطی ایشیائی تجارتی راستے یہیں پر ملتے تھے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
قدیم جین مندر
قدیم یورپی اقوام سکندر اعظم کے ہندوستان پر حملے کے وقت سے ٹیکسلا کے نام سے واقف تھیں۔ چھٹی صدی قبل از مسیح میں ٹیکسلا ایران کا ایک صوبہ تھا۔ بعد کی صدیوں میں یہ شہر کم از کم سات ادوار میں مختلف نسلوں کے شاہی خاندانوں کی حکمرانی میں رہا۔ اس تصویر میں وہ جگہ نظر آ رہی ہے، جہاں صدیوں پہلے ایک بڑا جین مندر موجود تھا۔
تصویر: DW/I. Jabeen
بازار جو اب کھنڈر ہیں
ٹیکسلا کی قدیم تہذیب کی باقیات کی تلاش کے لیے پہلی مرتبہ کھدائی برطانوی نو آبادیاتی دور میں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا نے 1913 میں شروع کی تھی جو 1934 تک جاری رہی۔ پھر پاکستان بننے سے پہلے اور بعد میں بھی بہت سے مشہور یورپی اور پاکستانی ماہرین آثار قدیمہ یہاں کھدائی کرتے رہے۔ اس تصویر میں جہاں خشک گھاس اور پتھر نظر آ رہے ہیں، وہاں صدیوں پہلے بھرے بازاروں میں انسانوں کی چہل پہل ہوتی تھی۔
تصویر: DW/I. Jabeen
موہڑہ مرادو
ٹیکسلا میوزیم سے مشرق کی سمت قریب پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر خانقاہ موہڑہ مرادو واقع ہے۔ یہ ایک بدھ عبادت گاہ، ایک مرکزی سٹوپا اور ایک خانقاہ کی باقیات پر مشتمل ہے، جہاں پجاریوں کے رہائشی کمرے،ان کا ایوان، باورچی خانہ غسل خانے اور گودام ہوا کرتے تھے۔ تصویر میں نظر آنے والی باقیات اس امر کا پتہ دیتی ہیں کہ اس دور میں بھی کتنے تعمیراتی نظم و ضبط سے کام لیا گیا تھا۔
تصویر: DW/I. Jabeen
سٹوپے اور خانقاہیں
وادی ٹیکسلا میں کھدائی کے نتیجے میں تقریباﹰ دو درجن سے زیادہ سٹوپے اور خانقاہیں دریافت ہو چکے ہیں۔ ان میں دھرما راجیکا، جولیاں، موہڑہ مرادو، پیلاں، گڑی، بھمالا، جنڈیال، جناں والی ڈھیری، بادل پور، بھلڑ توپ، کنالہ اور کلاوان نامی مقامات شامل ہیں۔ اس تصویر میں ایسی ہی ایک خانقاہ سے ملنے والے متعدد مجسمے نظر آ رہے ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
دو ہزار سال پرانی باقیات
وادی ٹیکسلا سے ملنے والی بدھ مت کی عبادت گاہوں کی زیادہ تر باقیات پہلی صدی عیسوی سے پانچویں صدی عیسوی تک کے زمانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ دھرما راجیکا سٹوپا تیسری صدی عیسوی کے دور کا ہے، جسے 1980 میں یونیسکو نے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کیا۔ ان میں سے بہت سے تاریخی مقامات آج بھی حیران کن حد تک اچھی اور مضبوط حالت میں ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
قدیم ٹیکسلا کی یونیورسٹی
قدیم ٹیکسلا شہر کے کھنڈرات کے آخر میں شہزادہ کنالہ کے سٹوپا کی جانب ایک مرکزی اور شاندار مقام ایسا بھی آتا ہے، جو پاکستان کے معروف ماہر آثار قدیمہ پروفیسر دانی کے بقول وہی جگہ ہے جہاں کئی صدیاں پہلے ٹیکسلا کی مشہور یونیورسٹی قائم تھی۔
تصویر: DW/I. Jabeen
شہزادہ کنالہ کا سٹوپا
ٹیکسلا کی قدیم یونیورسٹی سے کچھ دور شہزادہ کنالہ کا سٹوپا ہے۔ اس سٹوپے کے قریب کبھی ایک شاندار عمارت قائم تھی۔ اب وہاں صرف اس عمارت کی پتھریلی باقیات ہی رہ گئی ہیں۔ اس مقام اور اس کے قرب و جوار میں کھدائی سے بھی ماہرین کو بہت سے قدیم سکوں کے علاوہ مٹی اور دھات کے بنے برتن ملے تھے۔