1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گمنام بچوں کے لیے ماں کی گود کے بجائے فلاحی اداروں کے جھولے

Kishwar Mustafa10 اپریل 2012

پاکستان میں ڈاکٹروں اور فلاحی اداروں کے مطابق ایسے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جنہیں ان کے وارث مختلف وجوہات کی بنا پر یا تو قتل کر دیتے ہیں یا کسی فلاحی ادارے کے جھولے میں ڈال دیتے ہیں۔

تصویر: DW

زندہ بچ جانے والے لاوارث گمنام بچوں کی صحیح تعداد کا اندازہ لگانا ناممکن ہے کیونکہ ان بچوں کی پرورش کرنے والے ہر ادارے کے پاس انفرادی ریکارڈز تو موجود ہیں تاہم مجموعی اعدادوشمار اب تک جمع نہیں کئے گئے ہیں ۔

پاکستان میں کئی ایسے غیر سرکاری فلاحی ادارے کام کر رہے ہیں جو لوگوں کو ترغیب دیتے ہیں کہ اگر کسی وجہ سے وہ بچوں کو پال نہیں سکتے تو انہیں اداروں کے سپرد کردیا جائے جہاں ان کو گود لینے کے لئے کئی جوڑے رابطہ کرتے ہیں۔ پاکستان میں کام کرنے والی سب سے بڑی فلاحی تنظیم ایدھی فاونڈیشن کے ملک بھر میں چار سو مراکز قائم ہیں جن کے باہر جھولے لگائے گئے ہیں۔ اس کا مقصد لوگوں کو اس بات کی جانب آمادہ کرنا ہے کہ وہ ایسے بچے جن کی پرورش وہ نہیں کرنا چاہتے، انہیں قتل کرنے یا کسی گلی محلے اور کوڑے دان میں پھینکنے کے بجائے ان جھولوں میں ڈال دیں۔ ایدھی فاونڈیشن کے سربراہ عبدلاستار ایدھی کی اہلیہ بلقیس ایدھی نے ان جھولوں سے ملنے والے بچوں کی دیکھ بھال کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔ چھ دہائی قبل ان کے شروع کئے گئے جھولا پراجیکٹ کے تحت سولہ ہزار بچوں کی جانیں بچائی جا چکی ہیں۔ تاہم مردہ حالت میں بچے اب بھی شہر کے مختلف علاقوں سے ملتے رہتے ہیں۔ بلقیس ایدھی کے مطابق صرف ایدھی فاونڈیشن کو ہی ملک بھر سے سالانہ اوسطاً تین سو پینسٹھ بچے ملتے ہیں،’’زیادہ تر مرے ہوئے بچے ملتے ہیں۔ انہیں پلاسٹک بیگ میں بند کرکے، منہ میں کپڑا ڈال کر یا گلے میں رسی ڈال کر پھینک دیتے ہیں۔

گمنام بچے کی سوالیہ نگاہیںتصویر: DW

عبدلاستار ایدھی کے مطابق ملنے والے ان بچوں میں زیادہ تعداد بچیوں کی ہوتی ہے جبکہ مردہ بچوں کی تعداد زیادہ ہے، ’’ہمیں سال میں اگر پچیس بچے زندہ ملتے ہیں تو اڑھائی سو مردہ ہوتے ہیں۔ ان میں ایسے بچے بھی ہوتے ہیں جو معذور یا دماغی طور پر کمزور ہوتے ہیں۔ انہیں بھی جھولے میں ڈال دیا جاتا ہے‘‘۔

بلقیس ایدھی کے مطابق صرف مئی دو ہزار بارہ میں تیرہ گمنام نوزائدہ بچوں کی لاشیں ان کی تنظیم کو ملی جنہیں دفن کیا گیا۔ زندہ بچ جانے والے بچوں کو فوری طور پر گود لینے کے خواہش مند جوڑوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ عبدلاستار ایدھی کے مطابق اب تک چھبیس ہزار بچوں کو ان کے ادارے نے گود دیا ہے۔ان میں دیگر طریقوں سے ایدھی سینٹر کو ملنے والے بچے بھی شامل ہیں ۔ ان بچوں کو گود دینے سے قبل جوڑوں کی اچھی طرح سے چھان بین کی جاتی ہے، ’’ہم بچے صرف بے اولاد جوڑوں کو دیتے ہیں ۔ ہم نے کچھ لمٹس رکھی ہیں ۔ مثلاً شادی کو دس سال ہوئے ہوں، اولاد نہ ہو تو اپلائی کر سکتے ہیں ۔ جائداد دیکھتے ہیں، مکان پکا ہے اور اپنا ہے تو دیتے ہیں۔ چھ ہزار سے کم تنخواہ والوں کو نہیں دیتے کیونکہ بچے کی سکیورٹی بھی دیکھنی ہوتی ہے۔ جبکہ بچہ حوالے کرنے کے بعد پانچ سال تک خبر گیری رکھتے ہیں۔ آگے اسلئے نہیں کرتے کہ تاکہ بچے کو احساس نہ ہو کہ وہ گود لیا ہوا بچہ ہے‘‘۔

غربت اور جہالت سب سے بڑا مسئلہ ہے: بلقیس ایدھیتصویر: DW

ان بچوں کو گمنام چھوڑ دینے کی مختلف وجوہات بتائی جاتی ہیں ۔ بلقیس ایدھی کے مطابق بعض ایسی عورتیں ہوتی ہیں جو زنا یا زیادتی کے باعث مائیں بن جاتی ہیں اور معاشرے میں بدنامی کے خوف سے ان کی پرورش نہیں کرنا چاہتی۔ بعض عورتیں دوسری شادی کے لئے بچے چھوڑ جاتی ہیں۔ اور بعض دیگر مجبوریوں کے باعث بچے سے دستبردار ہوتی ہیں، اُن کے بقول،’’ایک غربت اور دوسرا جہالت، ہمارے ملک میں غربت بہت ہے، ہمارے ملک میں بے روزگاری ہے، ملک میں منصوبہ بندی نہیں ہے، منصوبہ بندی نہیں ہوتی یہ ہی وجہ ہے کہ ایک عورت کے دس بارہ بچے ہوتے ہیں‘‘۔

پاکستان میڈیکل ایسوسیشن سندھ کی صدر ڈاکٹر ثمرینہ ہاشمی کہتی ہیں کہ یہ تو ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں ایسے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جنہیں لاوارث اور گمنام چھوڑا دیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا،’’ ان میں صرف ناجائز بچے نہیں ہوتے بلکہ ان میں وہ بھی شامل ہیں جن کے ماں باپ غربت کے باعث انہیں پال نہیں سکتے۔ بچے پر بچہ پیدا ہوتا جاتا ہے، کوئی فیملی پلاننگ نہیں ہوتی۔ نہ ہی درمیان میں کوئی وقفہ ہوتا ہے۔ انہیں نہ کچھ بتایا جا رہا ہوتا ہے نہ انہیں اسے کنڑول کرنے کے لئے کوئی چیز دی جارہی ہوتی ہے۔اگر ایسے میں بچہ پیدا ہو جائے تو لوگ اسے چھوڑنا چاہتے ہیں یا کسی فلاحی ادارے کے سپرد کر دیتے ہیں‘‘۔

نوزائیدہ بچوں کے لیے قتل سے بہتر خیراتی اداروں کے جھولےتصویر: DW

جرمنی سمیت دنیا کے دیگر کئی ممالک کے ہسپتالوں میں ایسے جھروکے قائم ہیں جہاں نومولود کو مائیں مختلف وجوہات کے باعث چھوڑ جاتی ہیں۔ ڈاکٹر ثمرینہ ہاشمی کے مطابق پاکستانی ہسپتالوں میں ایسا کوئی نظام موجود نہیں‘‘۔

ہسپتالوں خصوصاً سرکاری ہسپتالوں میں ایسے کسی نظام کے نافذ کرنے کے حوالے سے ڈاکٹر ثمرینہ کا کہنا ہے کہ یہاں اتنی کرپشن سے کہ اگر ایسے نظام قائم کئے گئے تو یہ کاروبار کی صورت اختیار کر جائیں گے، وہ کہتی ہیں،’’ لوگ اس کاروبار کے تحت بچوں کی خرید و فروخت شروع کر دیں گے۔اسلئے میرے خیال میں ایسا کوئی نظام سرکاری اداروں میں نہیں ہونا چاہئے۔ ہاں لیکن ایدھی سینٹرز کی طرح کے ادارے ہوں تو ان کے حوالے کیا جا سکتا ہے جہاں نہ صرف بچوں کی مناسب دیکھ بھال ہوتی ہے بلکہ انہیں گود لینے کے خواہشمند جوڑوں کے حوالے بھی کیا جاتا ہے۔‘‘

ڈاکٹر ثمرینہ کا کہنا ہے کہ ملک میں baby hatches یا ایسا کوئی نظام قطعی طور پر ہونا چاہئے جس کے تحت لاوارث چھوڑ دئیے جانے والے بچوں کی دیکھ بھال کا انتظام ہو۔ کیونکہ یہ ان کو قتل کرنے سے بہتر ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’جو بچہ نہیں رکھنا چاہتا وہ ہر صورت میں نہیں رکھے گا۔ وہ اس کو مار کر پھنک دے گا، گلا دبا دے گا ،سانس روک دے گا، غلط ہاتھوں میں بچہ چلا جائے گا۔ اس سے بہتر نہیں ہے کہ آپ ایک جھولا لگائیں جس میں بچہ چھوڑ کر جانے والے بچے کو ڈال جائیں ۔ کم از کم اس کی جان تو بچ جائے گی،اس کو تعلیم اور کھانا تو مل جائے گا‘‘ ۔


ملک میں baby hatches کے حق میں جہاں ایک طرف پزیرائی پائی جاتی ہے وہیں اس نظام کے حوالے سے کچھ مخالفت بھی موجود ہے۔ بلقیس ایدھی کے مطابق لاوارث بچوں کی پرورش اور انہیں گود دینے پر بعض حلقوں کی جانب سے دھمکیاں بھی موصول ہوتی ہیں۔ انہوں نے بتایا، ’’مولویوں نے کہا کہ عبدلاستار ایدھی اور ان کی بیوی واجب القتل ہیں کیونکہ یہ حرام کے ناجائز بچے پالتے ہیں اس لیے یہ جنت میں نہیں جائیں گے اور اسلام سے خارج ہیں۔ ہمیں بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور آج تک تنقید کر رہے ہیں‘‘ ۔

ممتاز مذہبی اسکالر علامہ ظہیر عابدی کا کہنا ہے کہ ماؤں کا اپنے بچوں کو کسی خیراتی ادارے میں چھوڑ جانا احسن عمل نہیں اور اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا ۔ لیکن بچوں کو قتل کرنے سے کم از کم بہتر ہے کہ انہیں ادارے کے سپرد کر دیا جائے۔ ان کا کہنا تھا ، ’’انسانی معاشرہ میں اس بات کی کہیں اجازت نہیں کہ بچوں کو کسی ادارے کے سپرد کر دیا جائے۔ اور اسلام میں تو پہلے ہی بعض ایسی پابندیاں ہیں کہ جن پر عمل درآمد کیا جائے تو نوبت ہی نہ آئے کہیں بچہ حوالے کرنے کی ۔ اور اگر غربت کے باعث ایسا کیا جا رہا ہے تو اللہ فرماتا ہے کہ غربت کے باعث اپنے بچوں کو نہ مارو کیونکہ اس کو رزق دینے والے ہم ہیں۔ لیکن اسلام میں ایسا کہیں نہیں ہے کہ ناجائز بچوں کی پرورش کرنے والے جرم کرتے ہیں یا وہ واجب القتل ہیں‘‘۔

رپورٹ:عنبرین فاطمہ, کراچی

ادارت: کشور مصطفیٰ


ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں