رائل بنگال ٹائیگر نیپال کے بلند و بالا پہاڑوں پر: نیا ریکارڈ
12 دسمبر 2020
نیپال میں پہلی بار ایک رائل بنگال ٹائیگر کی تقریباﹰ تین ہزار دو سو میٹر بلند پہاڑوں میں موجودگی ریکارڈ کی گئی ہے۔ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ اس ٹائیگر کو ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے میں سطح سمندر سے اتنی زیادہ بلندی پر دیکھا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP
اشتہار
کھٹمنڈو سے ملنے والی رپورٹوں میں ملکی محکمہ جنگلات کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ جنگلی حیات کے مشاہدے کے لیے بہت اونچے پہاڑی علاقوں میں نصب کیے گئے کمیروں کے ذریعے ایک بنگال ٹائیگر کو 3,165 میٹر کی بلندی پر پہاڑوں میں گھومتے ہوئے دیکھا گیا۔
ناپید ہوتے جانور: بچنے کی امید کتنی؟
ایک نئی تحقیق کے مطابق بعض ناپید ہونے کے خطرے سے دوچار جانوروں کے بچنے کی امید پیدا ہوئی ہے۔ اس امید کی وجہ کورونا وائرس لاک ڈاؤن کے دوران جنگلی حیات کو ملنے والا سکون خیال کیا گیا ہے۔
برطانیہ کے ڈورسیٹ ساحلی علاقے میں خاردار سمندری گھوڑے نے کورونا لاک ڈاؤن کے دوران اپنی افزائش کے پرانے علاقوں میں لوٹ کر نسل بڑھانی شروع کر دی ہے۔ ’سی ہارس ٹرسٹ‘ کے بانی نیل گیرک میڈمنٹ کے مطابق جب انسان فطرتی ماحول سے پیچھے ہٹتا ہے تو بے گھر جانوروں کی بقا کو لاحق خطرات کم ہو جاتے ہیں۔
تصویر: Seahorse Foundation
فین سیپی کو شدید خطرات لاحق
اس سمندری سیپی اور اس کے اندر کی حیات کو گزشتہ دسمبر سے ایک ایسے جرثومے کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے اس سیپی کے معدوم ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ بحیرہ روم میں اس سیپی کی تعداد میں حیران کن کمی واقع ہو چکی ہے۔ اس سمندر میں جرثومے سے اسی فیصد سے زائد فین سیپی ضائع ہو گئی ہے۔
تصویر: CC BY-SA 2.0-Arnaud abadie
کولوبُس بندر کم ہوتا ہوا
افریقی ملک کینیا کا کولوبُس بندر اُن پچیس جانوروں میں شمار ہوتا ہے، جن کی بقا کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ اس بندر کو جنگلوں میں آگ لگنے، درختوں کی کٹائی، سیلاب اور زراعت میں کمی کی صورت حال کا سامنا ہے۔ اب اس نسل کے لیے جنگلات کا رقبہ انتہائی کم ہو چکا ہے اور کولوبُس بندر کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔
تصویر: CC BY-NC 4.0-Yvonne A. de Jong Image
افریقہ کا سیاہ گینڈا: بچ جانے کی امید باقی ہے
براعظم افریقہ کے سیاہ گینڈے کی نسل انتہائی سست روی سے بڑھ رہی ہے۔ سن 2012 سے 2018 تک اس کی تعداد 4845 سے بڑھ کر 5630 تک پہنچ گئی ہے۔ یہ شرح افزائش ڈھائی فیصد سالانہ ہے۔ سیاہ گینڈے کو انتہائی ناپید ہونے والے جانوروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس گینڈے کو ابھی بھی غیر قانونی شکار کا سامنا ہے۔
تصویر: Dave Hamman Photography
آسٹریلیائی تازہ پانی کی مچھلی: ماحول کا شکار
آسٹریلیا میں پائی جانے والی تازہ پانی کی مچھلی کو ماحولیاتی تبدیلیوں کا نشانہ بننے والی نسل خیال کیا جاتا ہے۔ اس مچھلی کی ساٹھ فیصد آبادی ماحولیاتی بحران کے نشانے پر ہے جبکہ سینتیس فیصد کے معدوم ہونے کا قوی امکان ہے۔ مچھلی کو آسٹریلیا میں پیدا خشک سالی نے شدید متاثر کیا ہے۔
تصویر: CC BY-NC 4.0-Brett Vercoe
گوام کا پرندہ ریل: بچانے کی کوششیں
بحر الکاہل میں واقع امریکی جزیرے گوام میں لڑائی سے دور رہنے والے پرندے ریل کی نسل کو معدوم ہونے کے بعد پھر سے بحال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس پرندے کو جزیرے کے درختوں پر رہنے والے بھورے سانپ ہڑپ کر گئے تھے۔ اب اس پرندے کو گوام کے ہمسایہ جزیرے کوکوس پر آباد کیا جا رہا ہے۔
تصویر: CC BY-NC-ND 2.0-Josh More
بڑے جسم کا جعلی بچھو
بچھو جیسے زہریلے صحرائی کیڑے کی نسل کے معدوم ہونے کے خطرات موجود ہیں۔ بچھو نسل کا یہ کیڑا افریقہ اور برازیل کے درمیان پانچ ایکڑ کے چھوٹے سے جزیرے ایسنسیئن کا کسی وقت اکلوتا مالک تھا۔ اس کو اب امریکی کاکروچ کی یلغار کا سامنا ہے۔
تصویر: Nicola Weber
یورپی خرگوش بھی ناپید ہوتے ہوئے
براعظم یورپ میں بسنے والے خرگوش کے ناپید ہونے کے خطرے شدید تر ہو گئے ہیں۔ اس نسل کے علاقے اسپین، جنوبی فرانس اور پرتگال ہیں۔ یہ خرگوش جنگلی بلی سیاہ گوش اور عقاب کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ ان خرگوشوں میں خون بہنے کی بیماری پھیلنے سے ان کی ستر فیصد نسل کے ناپید ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔
تصویر: Mathias Appel
جانوروں کے ساتھ شجر بھی معدوم ہونے لگے
سفیدے درخت کی 826 میں سے 812 قسمیں آسٹریلیا میں پائی جاتی ہیں۔ ایک عالمی جائزے کے مطابق آسٹریلیا میں پائی جانے والے سفیدے کی پچیس فیصد اقسام کے معدوم ہونے کے سنگین خطرات پیدا ہو چکے ہیں۔ یہ درخت کوالا کی خوراک ہیں اور ان کی کمی سے کوالا کی نسل بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔
تصویر: CC BY-SA 2.0-Thomas Caldwell
ریڑھ کی ہڈی والے جانور: معدوم ہونے کا شکار
ایک صدی قبل آسٹریلوی ٹسمانوی ٹائیگر کے ناپید ہونے کے بعد پانچ سو ریڑھ کی ہڈی والے جانور صفحہٴ ہستی سے مِٹ چکے ہیں۔ ایک ریسرچ کے مطابق اس وقت پانچ سو پندرہ ریڑھ کی ہڈی والے جانوروں کی تعداد ایک ہزار سے کم ہو چکی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیاں اور جانوروں کی تجارت اس عمل کو تیز رکھے ہوئے ہے۔
اس سے قبل ایسا کوئی ٹائیگر سطح سمندر سے اتنی زیادہ بلندی پر برف پوش پہاڑوں میں کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔
نیپالی محکمہ جنگلات کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق اس ٹائیگر کو گزشتہ ماہ دو مرتبہ ایک ایسے خفیہ ویڈیو کیمرے سے حاصل ہونے والی فوٹیج میں دیکھا گیا، جو وہاں سرخ رنگ کے دس جنگلی پانڈا جانوروں کی نقل و حرکت کا مشاہدہ کرنے کے لیے لگایا گیا تھا۔
مشرقی نیپال میں حکام نے ان جنگلی پانڈاز کو پکڑ کے ان کی گردنوں میں ان کی جغرافیائی پوزیشن کی نشاندہی کرنے والے جی پی ایس سیٹلائٹ پٹے ڈال کر دوبارہ انہیں پہاڑی جنگلوں میں چھوڑ دیا تھا۔
اس تجربے کا مقصد ان جانوروں کی نقل و حرکت کا ماحولیاتی مشاہدہ تھا۔
اتنی بلندی پر موجودگی انتہائی غیر معمولی
سرخ پانڈاز کی نسل کے تحفظ کے لیے سرگرم ریڈ پانڈا نیٹ ورک (RPN) کے پروگرام کوآرڈینیٹر سونم تاشی لاما نے ہفتہ بارہ دسمبر کے روز جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا کہ نیپال میں تقریباﹰ تین ہزار دو سو میٹر کی بلندی پر پہاڑوں میں رائل بنگال ٹائیگر کا پایا جانا بہت ہی غیر معمولی بات ہے۔
انہوں نےکہا، ''اس سے قبل بھوٹان میں یہ ٹائیگر سطح سمندر سے بہت بلندی پر پہاڑی علاقوں میں دیکھا تو گیا تھا، لیکن مشرقی نیپال کے اتنے بلند پہاڑی علاقے میں اس کا پایا جانا بہت ہی حیران کن ہے۔ یہ بات اب سے پہلے ماہرین ماحولیات کے علم میں تھی ہی نہیں۔‘‘
جنگلوں کی نسبت پنجروں میں موجود ٹائیگروں کی تعداد زیادہ
آج ٹائیگروں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ اندازوں کے مطابق جنگلوں میں موجود ٹائیگروں کی تعداد چار ہزار سے بھی کم رہ گئی ہے لیکن چڑیا گھروں اور گھروں میں ان کی تعداد مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS/L. Jie
معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار
ٹائیگر چھپ کر اور تنہائی میں رہنے والا جانور ہے۔ اسے نقل و حرکت کے لیے بڑے علاقے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ملائیشیا کے جنگلات، بھوٹان کے پہاڑوں اور بھارت کے ساحلی جنگلات میں ان کے لیے جگہ کم ہو رہی ہے۔ درخت تیزی سے کاٹے جا رہے ہیں، کاشت کاری، بڑھتی ہوئی آبادیاں اور سڑکوں کے جال ان کے لیے موت کا پیغام ثابت ہو رہے ہیں۔
نرم و ملائم بال، دھاری دار کھال اور خوبصورتی کی وجہ سے چڑیا گھروں کا یہ پسندیدہ ترین جانور ہے۔ امریکا میں یہ بات سچ لگتی ہے۔ امریکی محکمہ برائے جنگلی حیات کے مطابق گھروں اور چڑیا گھروں میں رکھے گئے ٹائیگرز کی تعداد جنگلوں میں پائے جانے والے ٹائیگرز کی نسبت کہیں زیادہ ہو چکی ہے۔ صرف ٹیکساس میں قید ٹائیگرز کی تعداد دو ہزار سے پانچ ہزار کے درمیان ہے۔
جنگلات میں ٹائیگروں کے نصف بچے ہی زندہ بچ پاتے ہیں۔ نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر بعض اوقات مادہ ٹائیگر بچوں کو دودھ نہیں پلاتی لیکن چڑیا گھروں میں ایسے بچوں کو کتیا کے ساتھ رکھ دیا جاتا ہے تاکہ بچے دودھ پی سکیں۔ ٹائیگر کے بچے فرق محسوس کرنے سے قاصر رہتے ہیں اور اس طرح ان کے زندہ بچ جانے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔
تصویر: dapd
ٹائیگر کی تین اقسام مِٹ چکی ہیں
مجموعی طور پر ٹائیگر کی نو ذیلی اقسام ہیں لیکن آج ہمارے پاس صرف چھ ہی باقی بچی ہیں۔ صدیوں کی موسمیاتی تبدیلیوں نے ان کی نسل پر بھی اثرات چھوڑے ہیں۔ سربیا کے اس ٹائیگر (آمور، تصویر میں) کے بال اور جسامت دیگر اقسام سے بڑی ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/All Canada Photos/F. Pali
افزائش نسل میں مشکلات
ٹائیگرز کی موجودہ چھ اقسام میں جینیاتی لحاظ ایک جیسی ہی ہیں لیکن ان کی عادات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ٹائیگروں کی جو عادات ایشیا میں ہیں، وہ افریقہ میں نہیں۔ کچھ ٹائیگر برساتی جنگلات میں رہتے ہیں اور کچھ خشک جنگلات میں، اسی طرح کچھ کا مسکن دلدلی علاقے ہیں تو کچھ تین ہزار میٹر کی بلندی پر رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تلاش اور ان کی تعداد میں اضافے کی کوششیں کرنا ایک مشکل امر ہے۔
ویسے تو انہیں کئی قسم کے خطرات لاحق ہیں لیکن ماحولیاتی تبدیلیاں ان کے لیے ایک بڑا خطرہ بنی ہوئی ہیں۔ سائنس آف دا ٹوٹل انوائرمنٹ میں شائع ہونے والی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق سندربن جنگلات میں پانی کی سطح بلند ہو ہی ہے۔ بھارت سے بنگلہ دیش تک پھیلے اس قدرتی علاقے میں آنے والی تبدیلیاں بنگال ٹائیگرز کی نسل کے لیے خطرہ ہیں۔ یہ نسل صرف اسی ماحول کی عادی ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS/L. Jie
6 تصاویر1 | 6
حیاتیاتی انواع کے تحفظ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ ان ٹائیگرز نے بدلتے ہوئے موسمیاتی اور ماحولیاتی حالات کی وجہ سے بلندی کی طرف رخ کرنا شروع کر دیا ہو۔
نیپال کا بنگال ٹائیگرز سے متعلق قومی ہدف
چند ماہرین کے مطابق نیپال کے پہاڑی علاقوں میں ان جانوروں کی اب تک کے مقابلے میں زیادہ تعداد میں موجودگی کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ان ٹائیگرز کا قدرتی ماحولیاتی نظام تیزی سے بدل رہا ہو اور انہیں اپنے زندہ رہنے کے لیے دیگر جانوروں کا شکار کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہوں۔
نیپالی حکومت نے اپنے لیے یہ ہدف مقرر کر رکھا ہے کہ نیپال کے ریاستی علاقے میں ان ٹائیگرز کی آبادی 2022ء تک دو گنا ہو جانا چاہیے۔ قومی اعداد و شمار کے مطابق کھٹمنڈو حکومت اپنا یہ ہدف حاصل کر لینے کے بہت قریب پہنچ چکی ہے۔
م م / ا ا (ڈی پی اے)
جنگلی حیات کی گدگیاں، فوٹو پر انعام
اس سال کے کامیڈی وائلڈ لائف فوٹوگرافی ایوارڈز منعقد ہونے جا رہے ہیں۔ آئیے وہ تصویریں دیکھیں، جنہیں دیکھ کر آپ نہ چاہتے ہوئے بھی مسکرانے پر مجبور ہو جائیں گے۔
تصویر: Arthur Telle-Thiemann/Comedy Wildlife Photo Awards 2020
ادھر ڈوبے ادھر نکلے
کامیڈی وائلڈ لائف ایوارڈز CWPA دو فوٹو گرافروں پاؤل جوئنسن ہِکس اور ٹوم سولام نے سن 2015 میں شروع کیا تھا۔ اس کا مقصد کرہء ارض پر موجود متنوع زندگی کی مذاحیہ تصاویر کے ذریعے جنگلی حیات کے تحفظ کا شعور پیدا کرنا تھا۔ امریکی ریاست ورجینیا کے فوٹوگرافر چارلی ڈیوڈسن نے ریکون کی جاگنے کی یہ تصویر مقابلے کے لیے بھیجی۔
تصویر: Charlie Davidson/Comedy Wildlife Photo Awards 2020
مچھلی شکار نہیں کرنی
سی ڈبلیو پی اے عالمی مقابلہ بورن فری فاؤنڈیشن کے اشتراک عمل سے منعقد ہوا۔ اس میں چھ مختلف کیٹیگریز کے لیے ججز نے فیصلہ سنایا۔ ان میں بری اور آبی جانوروں کے علاوہ اڑنے والے جانداروں کی تصاویر بھی شامل تھیں۔ سیلی لیوڈ جونز نے کنگ فشر کی تیرتے ہوئے یہ تصویر اسکاٹ لینڈ میں بنائی۔
ایک کیٹیگری سولہ برس سے کم عمر بچوں کے لیے مختص ہے جب کہ ایک مختصر دورانیے کے ویڈیو کلپ کے لیے ہے۔ اس تصویر میں اسرائیل میں ایک لومٹری کا بچہ ’شریو‘ سے کھیل رہا ہے۔ یوں لگ رہا ہے جیسے بچوں کی برطانوی کلاسیکی کہانی ’دی گفیلو‘ کے طرز پر یہ شریو زندگی کی بھیک مانگ رہا ہے۔
اس بار سی ڈبلیو پی اے کا پیغام تھا تحفظ گھر سے۔ اس دفعہ لوگوں کو پیغام دیا گیا کہ وہ چھوٹے فاصلے کے سفر کے لیے جہاز کا استعمال نہ کریں اور شہد کی مکھیوں کے تحفظ کی بھی کوشش کریں۔ اس بار کے مقابلے پر عالمی وبا کے سائے بھی دکھائی دیے۔ یہ فوٹو برسلز سے تعلق رکھنے والے فوٹوگرافر پیٹر سوشمن کا ہے، جنہوں نے سری لنکا میں اس تصویر میں پرندوں میں بھی ’جسمانی فاصلہ‘ دکھایا۔
تصویر: Petr Sochman/Comedy Wildlife Photo Awards 2020
گلوکار گلہری
ہنگری سے تعلق رکھنے والے رولینڈ کرانتس کی اس تصویر میں ایک گلہری جیسے گانا گاتے ہوئے کہہ رہی ہے ’میری آواز کتنی اچھی ہے‘۔ اس بار عالمی وبا کے تناظر میں مقابلے کی روایتی تقریب منسوخ کرنا پڑی تاہم منتظمیں کا کہنا ہے کہ ایک زبردست آن لائن تقریب ہونے والی ہے۔
چھٹیاں گزارنے جنوبی انڈونیشیا میں بالی میں ایک مندر گئے لوئس مارتی نے یہ چھوٹا سا لنگور دیکھا۔ اس تصویر میں یہ بندر تصویر بنانے کے لیے ہنستے ہوئے ایک پوز دیے ہوئے ہے۔ یہ تصویر اس بار کے مقابلے کے فائنل میں شامل تصاویر میں سے ایک ہے۔
تصویر: Luis Martí/Comedy Wildlife Photo Awards 2020