1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گوئٹے انسٹيٹيوٹ قاہرہ اور انقلاب: ايک انٹرويو کا اقتباس

1 فروری 2012

کئی عرب ملکوں ميں حکومتوں کی تبديلی سے عرب دنيا ميں خاصی تبديلی آئی ہے۔ مصر کے دارالحکومت قاہرہ ميں گوئٹے انسٹيوٹ ہنگامہ آرائيوں کے مرکز تحرير چوک کے قريب ہی واقع ہے۔

تحرير لاؤنج، گوئٹے انسٹيٹيوٹ قاہرہ
تحرير لاؤنج، گوئٹے انسٹيٹيوٹ قاہرہتصویر: Mohamed Elmaymony

جب ڈوئچے ويلے نے ادارے کے گنتر ہازن کامپ سے پوچھا کہ آپ نے اس ہنگامہ خيز دور ميں کيسا محسوس کيا تو انہوں نے کہا: ’’مبارک حکومت کے خاتمے کے بعد انسٹيٹيوٹ کے سامنے ايک تباہ شدہ ٹرک کھڑا تھا جس پر لکھا تھا: ’The End‘۔ اُس وقت ايک بالکل نئے آغاز کی علامتيں نظر آ رہی تھيں۔ قاہرہ کو ايک نئے معاشرے کے ميدان تعمير کی حيثيت سے ديکھا جا رہا تھا، ماہر تعميرات نظر نہ آنے کے باوجود۔ ليکن يہ خوشی اور جوش چند ہفتوں کے اندر ہی ٹھنڈا پڑ گيا۔ رفتہ رفتہ اور خاص طور پر موسم گرما کے بيت جانے کے بعد مايوسی بڑھتی ہی گئی۔ يہ ايک بہت جذباتی دور تھا۔ ہميں يہاں انسٹيٹيوٹ ميں اس کا احساس صرف اسی وجہ سے نہيں ہوا کہ ہم تحرير چوک کے لاؤڈ اسپيکروں سے گونجتی آوازيں بہت اچھی طرح سے سن سکتے تھے۔‘‘

گنتر ہازن کامپتصویر: Günther Hasenkamp

ہازن کامپ نے کہا کہ مصر کے انقلابيوں کے درميان ثقافتی ميدان ميں فعال بہت سے افراد ملتے ہيں، ليکن اس انقلاب نے انسانوں کی زندگی کو جھنجھوڑ کر رکھ ديا ہے۔ انفراديت سے شروع ہوتے ہوئے ايک نئی اجتماعيت پيدا ہوئی ہے، چاہے وہ فيس بک کميونٹيز کی شکل ہی ميں ہو۔ نجی دائرہ اچانک سياسی دائرے ميں تبديل ہو گيا ہے اور عوامی منظر ايک حد تک نجی دائرہ بن گيا ہے۔ مظاہرين تحرير چوک پر جھاڑو سے صفائی کرتے تھےکيونکہ اب يہ پوليس کے زير نگرانی ايک اجنبی جگہ نہيں بلکہ اُن کا اپنا چوک بن گيا تھا۔ تمام تر فرق کے باوجود اس وقت دنيا بھر ميں جاری occupy تحريکوں کے حوالے سے يہ احساس ملکيت آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔
گنتر ہازن کامپ سے پوچھا گيا کہ جرمنی اور يورپ ايک سال قبل انقلابی تمنا کے ابھرنے سے حيران رہ گئے تھے، تو گوئٹے انسٹيٹيوٹ نے ان ڈرامائی تبديليوں پر کيا ردعمل ظاہر کيا تھا۔ انہوں نے جواب ميں کہا: ’’يہ جلد ہی ظاہر ہو گيا تھا کہ جمہوری قوتوں کو پنپنے کا موقع نہيں ملا تھا۔ ہم نے اپنی سابق جمہوری تحريک نوجوانان کو ’تحرير لاؤنج‘ کا نام دے ديا اور اسے اُن کے حوالے کر ديا۔ نوجوانوں کے اپنے انتظام کے تحت يہاں سیمنار، مباحثے اوردوسری تقريبات ہونے لگيں۔ بنيادی طور پر ’تحرير لاؤنج‘ کی سرگرمياں سياسی تعليم و تربيت کا حصہ ہيں۔ مارچ ہی ميں ہم نے انٹرنيٹ پر ايک ويب جرنل کا آغاز کر ديا جسے ’ٹرانزٹ‘ کا نام ديا گيا۔ ہم نوجوانوں کو اس بارے ميں لکھنے پرآمادہ کرنا چاہتے تھے کہ اب انہيں کن موضوعات، کيفيات اور مباحثوں سے دلچسپی تھی۔ ہم اسے دستاويزی شکل ميں لازماً محفوظ نہيں کرنا چاہتے تھے بلکہ يہ کسی خوف اور انتقام کے ڈر کے بغير اپنے خيالات کے بے باکانہ اظہار کا تاريخی موقع تھا۔ بہت براہ راست،حقيقت کے قريب اور بہت متاثر کن۔ غير ملکی اثرات سے آزاد خود اپنا راستہ بنانے کا جذبہ بھی نماياں ہے۔‘‘

گوئٹے انسٹيٹيوٹ قاہرہ ميں کتب ميلہتصویر: DW

انٹر ويو: مدھون لوآئے / شہاب احمد صديقی

ادارت: شامل شمس

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں