1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گوادر پورٹ: انتظامی کنٹرول چینی کمپنی کے حوالے

4 فروری 2013

بلوچستان کے ضلع گوادر کا شمار پاکستان کے اسٹریٹیجیک نوعیت کے علاقوں میں کیا جاتا ہے۔ پاکستان نے گوادر پورٹ کی انتظامی ذمہ داری ابھی حال ہی میں سنگاپور سے لے کر چینی کمپنی اوورسیز پورٹ ہولڈنگ لمیٹڈ کو منتقل کر دی ہے۔

تصویر: Abdul Ghani Kakar

پاکستان نے 7ستمبر 1958 کو خلیجی ریاست عُمان سے گوادرکا علاقہ خریدا تھا جسے بعد میں یکم جولائی 1977میں صوبہ بلوچستان میں ضم کر دیا گیا ۔ گوادر بندرگاہ کی تعمیر کے لئے پاکستان اور چین کے درمیان بیجنگ میں 16مارچ 2002 کو ایک معاہدےپر دستخط کئے گئے تھے۔ حال ہی میں وفاقی کابینہ نے گوادر بندرگاہ چلانے کی انتظامی ذمہ داری سنگاپور کی ایک کمپنی سے لے کر چینی کمپنی اوورسیز پورٹ ہولڈنگ لمیٹڈ کو منتقل کرنے کی منظوری دی ہے۔ اس طرح اب گوادر بندرگاہ کی تعمیر کی لاگت کا 75 فیصد چین ادا کرے گا۔

خیال کیا جاتا ہے کہ گوادر مستقبل میں ایک مصروف بندرگاہ بن جائے گیتصویر: AP

اقتصادی اُمور کے ممتاز تجزیہ کار ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا کہنا ہے کہ گوادر پورٹ پر اگر ملک کے موجودہ حالات اثرانداز نہ ہوں تو اس سے ملک کی اقتصادی حالت میں نمایاں بہتری واقع ہو سکتی ہے انہوں نے کہا ’’جو ویجز ہیں وہ دبئی کے مقابلے میں گوادر پورٹ میں دس فیصد بھی نہیں ہیں اور تجارت کا بڑا حصہ بھی آنے والے دنوں میں بلوچستان کے گہرے پانی سے گزرے گا، اس لئے میرا یہ خیال ہے کہ اس علاقے سے پاکستان اور اس پورے ریجن کی ترقی ہو گی اگر اسے صحیح طور پر استعمال میں لایا جا سکے‘‘۔

گوادر بندرگاہ کی ترقی سے نزدیکی علاقوں میں بھی سماجی و اقتصادی ترقی ممکن ہےتصویر: AP

گوادر پورٹ کو بلوچستان کی سابقہ معزول حکومت نے اپریشنل کیا تھا جس سے وہاں ہزاروں لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی میسر آئے۔ پورٹ پر کام کرنے والے مقامی کمپنی کے ایک ملازم صفدر حسین کا کہنا ہے کہ اس پورٹ سے مقامی لوگوں کی اقتصادی حالت میں نمایاں بہتری ہوئی ہے، انہوں نے کہا ’’ ہر ایک کو فائدہ ہورہا ہے، آپ شہر میں دیکھ سکتے ہیں کہ جو چھوٹے کاروبار ہیں، ہوٹلنگ ہے، ریسٹورانٹس ہیں، وہ کس طرح ترقی کر رہے ہیں، لوگوں کی معاشی حالت بہتر ہو رہی ہے‘‘۔

ساحلی شہر پسنی سے تعلق رکھنے والے محنت کش خیر جان بلوچ کا روزگار بھی گوادر پورٹ سے وابستہ ہے انہیں بھی گوادر بندرگاہ اپنی معاشی ترقی کے لئے اہم دکھائی دیتی ہے ان کا کہنا ہے ’’ ہمیں بہت فائدہ ہو رہا ہے، لوڈنگ اور ان لوڈنگ ساری یہاں ہوتی ہے ہمارے لوگوں کو اس سے روز گار ملا ہے، یہ واحد پورٹ ہے جس میں 300 سے 400 کے قریب گاڑیاں روزانہ لوڈ ہوتی‘‘۔

گوادر پورٹ کو اندرون ملک سمیت افغانستان، چین اور وسطی ایشیائی ممالک سے پانچ شاہراہوں کے ذریعے منسلک کیا جا رہا ہے، جس سے ان ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات میں بھی نمایاں بہتری واقع ہو گی۔

عبدالغنی کاکڑ، کوئٹہ

ادارت: عابد حسین

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں