1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گوادر پورٹ کے آپريشنز چينی کمپنی کے سپرد، کابينہ نے منظوری دے دی

31 جنوری 2013

پاکستان کے وزير اطلاعات کے مطابق ملکی کابينہ نے گوادر پورٹ کے آپريشنز کی ذمہ داری چينی کمپنی کو سونپنے کی منظوری دے دی ہے۔ قبل ازيں يہ ذمہ داری سنگاپور کی ايک کمپنی نے سنبھالے رکھی تھی۔

تصویر: Abdul Ghani Kakar

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات قمر الزمان کائرہ نے جمعرات کو بتايا کہ گزشتہ روز ملکی کابينہ نے گوادر پورٹ کے آپريشنز سنگاپور کی پی ايس اے انٹرنيشنل سے چين کی اوورسيز پورٹ ہولڈنگز لميٹڈ کو منتقل کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ کائرہ نے مزيد بتايا کہ اس سلسلے ميں دونوں کمپنيوں کے درميان سمجھوتہ طے پا چکا ہے۔ وزیر اطلاعات کے مطابق سنگاپور کی پی ايس اے انٹرنيشنل بندگاہ کے معاملات ’مطلوبہ انداز‘ ميں نہيں چلا رہی تھی اور توقع ہے کہ اب چينی کمپنی سرمايہ کاری کرتے ہوئے اسے پاکستانی معيشت کے ليے مفيد بنا سکے گی۔ کائرہ نے اس موقع پر يہ بھی بتايا کہ آپريشنز جلد ہی چينی کمپنی کے سپرد کر ديے جائيں گے۔

واضح رہے کہ گوادر پورٹ کی ڈيولپمنٹ پر قريب ڈھائی سو ملين ڈالر کی سرمايہ کاری کی گئی تھی، جس ميں تقريبا اسی فيصد حصہ چين کا تھا۔ روئٹرز کے مطابق چين کے اس قدم کا مقصد پاکستان کے ذريعے خليجی ممالک سے چين کے مغربی حصے تک تجارت کے ليے راستہ کھولنا ہے۔

گوادر پورٹ کی ڈيولپمنٹ پر قريب ڈھائی سو ملين ڈالر خرچ ہوئےتصویر: AP

واضح رہے کہ اس سے قبل مئی سن 2011 ميں پاکستان کے سابق وزير دفاع احمد مختار يہ کہہ چکے تھے کہ چين نے آپريشنز سنبھالنے کے ليے اپنی رضامندی کا اظہار کر ديا ہے۔ اس وقت مختار نے يہ بھی کہا تھا کہ ’اسلام آباد انتظاميہ چين کی شکر گزار ہوگی اگر بيجنگ گوادر ميں پاکستان کے ليے ايک نيوی بيس بھی قائم کرے۔‘ تاہم اس وقت چينی وزارت خارجہ نے ايسی کسی درخواست سے لاعلمی کا اظہار کيا تھا۔

چين پاکستان کا ايک اہم اتحادی ملک ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو اسلحے کی فروخت بھی کرتا ہے۔ ايشيا کے ’معاشی ديو‘ کی حيثيت رکھنے والے اس ملک نے سری لنکا ميں بھی بندرگاہ قائم کرنے کے ايک منصوبے ميں سرمايہ کاری کر رکھی ہے جبکہ بنگلہ ديش کی جانب سے بھی چين سے ايسے ہی ايک پورٹ کی تعمير کے سلسلے ميں معاونت کی درخواست کی جا چکی ہے۔

(as/at (Reuters, AFP

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں