پاکستانی شہر گوادر کے قریب نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرتے ہوئے دس مزدوروں کو ہلاک جبکہ متعدد دیگر کو زخمی کر دیا ہے۔ کسی گروہ نے فوری طور پر اس کارروائی کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے بتایا ہے کہ پاکستانی صوبے بلوچستان کے شہر گوادر کے نواح میں تشدد کا یہ تازہ واقعہ تیرہ مئی بروز ہفتہ رونما ہوا۔ حکام کے مطابق گوادر میں جاری ایک تعمیراتی منصوبے پر کچھ مزدور کام کر رہے تھے کہ اچانک کچھ حملہ آوروں نے ان پر حملہ کر دیا۔ مقامی پولیس اہلکار عبدالسلام نے بتایا ہے کہ یہ کارروائی گوادر پورٹ سے بیس کلومیٹر دور ایک دیہات میں دو مقامات پر کی گئی ہے۔
سینیئر پولیس اہلکار محمد ظریف نے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام مزدوروں کو انتہائی قریب سے گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عینی شاہدین کے مطابق حملہ آور موٹر سائیکلوں پر سوار تھے۔ کسی گروہ نے فوری طور پر اس کارروائی کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ تاہم ماضی میں بلوچ باغی ایسے حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے رہے ہیں۔
پولیس نے بتایا ہے کہ ہلاک شدگان مزدور صوبائی حکومت کے دو تعمیراتی منصوبہ جات پر کام کر رہے تھے۔ بتایا گیا ہے کہ جن مقامات پر فائرنگ کی گئی ہے، وہ دونوں مقامات ایک دوسرے سے تقریباً تین کلو میٹر کی دوری پر واقع ہیں۔ محمد ظریف کے مطابق اطلاع کے بعد طبی عملہ فوری طور پر جائے حادثہ پہنچ گیا تھا، جس نے زخمیوں کو طبی مراکز منتقل کر دیا۔
بلوچستان میں کوئلے کی کانیں
بلوچستان کی کانوں سے نکلنے والے کوئلے کا شمار دنیا کے بہترین کوئلے میں کیا جاتا ہے۔ اس کوئلہ کا ایک ٹن اوپن مارکیٹ میں 10 سے 11 ہزار روپے میں فروخت ہوتا ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کوئلے کا سب سے بڑا ذخیرہ
بلوچستان کے علاقے دکی میں واقع چمالانگ ایشیاء میں کوئلے کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے، جو ساٹھ کلومیٹر طویل اور بیس کلومیٹر چوڑے علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس علاقےمیں پانچ سو ملین ٹن کوئلہ موجود ہے، جس کی مالیت دو ہزار ارب روپے سے زائد ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کم اجرت
18 سالہ سید محمد مچھ کےعلاقے مارواڑ میں گزشتہ دو سالوں سے ٹرکوں میں کو ئلے کی لوڈ نگ کا کام کرتا ہے، جس سے روزانہ اسے 3 سو سے پانچ سو روپے تک مزدوری مل جاتی ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کان کن
بلوچستان کے علا قے مارواڑ،سورینج، ڈیگاری ،سنجدی اور چمالانگ کے کوئلہ کانوں میں سوات، کوہستان اور خیبر پختونخواء سے تعلق رکھنے والے ہزاروں مزدور کام کرتے ہیں۔ ان کانوں میں حادثات سے درجنوں کان کن ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
سہولیات کا فقدان
بنیادی سہولیات کے فقدان کے باعث بلوچستان میں کان کنی سے وابستہ افراد شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔ اس صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے حکومتی سطح پرابھی تک کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔ مائننگ کی نجی کمپنیوں کے پاس مناسب اوزار نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اسی لیے ان کانوں میں حادثات کے باعث اکثر اوقات کانکن اندر پھنس جاتے ہیں۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
شیرین زادہ
55 سالہ شیرین زادہ سوات کے پہاڑی ضلع شانگلہ کا رہائشی ہے، جو گزشتہ 25 سالوں سے بلوچستان میں کان کنی کا کام کر رہا ہے۔ شیرین زادہ کہتے ہیں کہ کوئلے کی کانوں میں مناسب حفاظتی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے مزدوروں کی جانوں کو خطرات لاحق ہیں۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کوئلے کی ترسیل
مزدور مجموعی طور ہر کوئلے کے ایک ٹرک کی لوڈ نگ کا معاوضہ 3 سے 4 ہزار روپے تک وصول کرتے ہیں۔ یہ رقم بعد میں آپس میں تقسیم کردی جاتی ہے۔ بعد میں یہ کوئلہ پنجاب، سندھ اور ملک کے دیگر حصوں میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ ایک ٹرک میں 28 سے 34 ٹن کوئلے گنجائش ہوتی ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
6 تصاویر1 | 6
صوبہ بلوچستان میں واقع گوادر پورٹ کو پاکستان کی اقتصادی ترقی کا زینہ قرار دیا جا رہا ہے تاہم وہاں فعال مقامی بلوچ باغی چین کے اشتراک کے ساتھ طے پانے والے اس منصوبے کے خلاف ہیں، جس کے تحت نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان بھر میں سرمایا کاری کی جا رہی ہے۔
گزشتہ کئی عشروں سے قدرتی وسائل سے مالا مال صوبے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں فعال یہ باغی بلوچ تنظیمیں قدرتی گیس سے حاصل کردہ آمدنی میں زیادہ بڑے حصے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
صوبہ بلوچستان ایک طویل عرصے سے بحران کا شکار ہے۔ علیحدگی پسندوں کے معاملے نے 2004ء میں ایک مرتبہ پھر سر اٹھایا۔ قوم پرستوں کا مؤقف ہے کہ مقامی لوگوں کو علاقے کے قدرتی وسائل میں حصہ نہیں دیا جا رہا ہے۔ ایسے حلقے اور انسانی حقوق کے فعال ادارے بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام بھی لگاتے ہیں۔
پاکستان کے اس صوبے کا رقبہ اٹلی کے برابر ہے تاہم اس کی آبادی صرف نو ملین ہے۔ اس کی سرحدیں ایران اور افغانستان سے ملتی ہیں۔ اسے خودمختاری دینے کا معاملہ پاکستان میں انتہائی نازک ہے جہاں 1971ء میں مشرقی حصے (موجودہ بنگلہ دیش) کی آزادی کو آج بھی ایک زخم خیال کیا جاتا ہے۔
بلوچستان میں کوئلے کی کانیں اور ان کے مزدور
کان کنی کو 18 ویں صدی کے صنعتی انقلاب کی بنیاد سمجھا جاتا ہے تاہم بدلتے وقت اور اس پیشے سے منسلک خطرات کے سبب بین الاقوامی سطح پر اس جانب سے توجہ منتقل ہوئی ہے۔ پاکستان میں اب بھی کئی مقامات پر کوئلے کی کانیں موجود ہیں۔
تصویر: DW/S. Khan
ضروریات زندگی کی بنیادی سہولیات سے دور
بلوچستان کے علاقے سورن رینج میں کوئلے کی کان میں مزدوری کرنے والے سینکڑوں مزدوروں میں سے ایک بخت زمین کا تعلق سوات سے ہے۔ وہ چھ افراد کے کنبے کی کفالت کرتا ہے اور انہی پہاڑوں میں ضروریات زندگی کی بنیادی سہولیات سے میلوں دور زندگی بسر کرتا ہے
تصویر: DW/S. Khan
کان کنی اور تعلیم ساتھ ساتھ
فضل کریم ایک نوجوان کان کن ہے، سخت حالات میں وہ دن کے اوقات میں اپنی تعلیم حاصل کر رہا ہے اور رات میں کان میں کام کرتا ہے، مائیکرو بائیالوجی کا یہ طالب علم یہاں کے کان کنوں کے لیے ایک درخشاں مثال ہے۔
تصویر: DW/S. Khan
تعلیمی سہولیات کی عدم فراہمی
کان کنوں کی اس آبادی میں ان کے ساتھ ان کے اہل خانہ بھی رہ رہے ہیں۔ صالحہ اور صنم دو بہنیں ہیں اور یہاں اسکول یا مدرسہ نہ ہونے کے سبب خاصی اداس رہتی ہیں۔
تصویر: DW/S. Khan
غلیل سے چڑیا کا شکار
بلوچستان کے ان پہاڑی علاقوں میں رہنے والے کان کنوں کے بچے دل بہلانے کے لیے مختلف کھیل کھیل کر وقت گزارتے ہیں۔ یہ بچے غلیل سے چڑیا کا شکار کرنے میں مصروف ہیں۔
تصویر: DW/S. Khan
ایک عمر بیت گئی
67 سالہ عبد الخالق گزشتہ قریب چار عشروں سے یہاں مزدوری کر رہے ہیں۔ سانس کی تکلیف میں مبتلا عبدالخالق کا اب دنیا میں کوئی نہیں رہا اور ان کے شب و روز یہیں گزارتے ہیں۔
تصویر: DW/S. Khan
کان کنوں کی جانوں کو دوسرا خطرہ
ایک مزدور کان سے نکلنے والے فضلے کو پہاڑی ڈھلان سے نیچے پھینک رہا ہے۔ بلوچستان میں بدامنی کے سبب اب پہلے کے مقابلے میں بہت کم کان کن رہ گئے ہیں اور ان کی اکثریت اپنے آبائی علاقوں کی طرف چلی گئی ہے۔
تصویر: DW/S. Khan
زندگی اور موت کوئلے کی کانوں کے پاس
عشروں سے بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑی علاقوں میں کان کنی کرنے والے مزدور موت کے بعد بھی کمزور اقتصادی حالات کے سبب اپنے آبائی علاقوں میں نہیں لے جائے جاتے اور یہی دفنا دیے جاتے ہیں۔