1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

10 years on

13 جنوری 2012

گوانتانامو بے میں واقع امریکی جیل خانے کے قیام کو بدھ کو دس برس مکمل ہو گئے۔ 2002ء میں مشتبہ دہشت گردوں کے لیے بنائے گئے اس جیل خانے سے کئی قیدیوں کو رہا کر دیا گیا ہے لیکن اب بھی وہاں 171 قیدی آزادی کے منتظر ہیں۔

تصویر: AP / DW

اس متنازعہ امریکی جیل خانے کے دس برس مکمل ہونے پر ڈوئچے ویلے نے Reprieve نامی ایک ایسے گروپ سے گفتگو کی، جو گوانتانامو بے کے حراستی کیمپ میں مقید افراد کو قانونی مدد فراہم کر رہا ہے۔ اس حوالے سے اس ادارے سے وابستہ ماہر قانون کورٹنی بش سے بات چیت کی گئی۔

ڈوئچے ویلے: آپ کا ادارہ گوانتانامو بے کے جیل خانے میں قید پندرہ قیدیوں کو قانونی مشاورت فراہم کر رہا ہے، اس حوالے سے آپ کو کیا مشکلات درپیش ہیں؟

کورٹنی بش : صرف ہمارے کیسوں میں ہی نہیں بلکہ گوانتانامو کے تمام تر کیسوں میں دو بنیادی مشکلات ہیں۔ پہلا مسئلہ یہ ہے کہ گوانتانامو بے کے کیسوں کے حوالے سے امریکی عدلیہ کا نظام خاصا کمزور ہے۔ اور پھر یہ کہ اگرچہ امریکہ میں عدلیہ کا نظام آزاد ہے تاہم گوانتانامو کے حوالے سے ہم نے نوٹ کیا ہے کہ کانگریس اور دیگر انتظامی ادارے ایک نامعلوم سیاسی دباؤ ڈالتے ہیں۔ ان صورتحال میں گوانتانامو کے قیدیوں کے وکلاء نے فیصلہ کیا ہے کہ جب تک امریکہ میں یہ مسائل حل نہیں ہو جاتے، وہ اپنے کیسوں کو آگے نہیں بڑھائیں گے۔

’یہ قیدی معمول کی زندگی بسر کرنے کے خواہاں ہیں‘تصویر: glabalandmail.com

ڈوئچے ویلے: کیا مستقل قریب میں ایسی کوئی امید ہے کہ امریکہ میں اس صورتحال میں کوئی مثبت تبدیلی پیدا ہو گی تاکہ آپ اپنے کیسوں میں پیشرفت کر سکیں؟

کورٹنی بش: اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ امریکہ میں گوانتانامو کے کیسوں میں نمایاں اتار چڑھاؤ آیا ہے۔ کبھی کبھار صورتحال پیچیدہ ہو گئی تو کبھی اس میں بہتری آئی اور پھر ایک دم دوبارہ خراب ۔ تاہم اس کے باوجود ہم پُرامید ہیں کہ اس صورتحال میں بہتری پیدا ہو گی۔ آئندہ برس امریکہ میں ہونے والے صدارتی انتخابات کی وجہ سے رواں برس تو کسی تبدیلی کی امید نہیں ہے۔

ڈوئچے ویلے : گوانتانامو بے کے حراستی کیمپ میں زیادہ تر افراد کا تعلق پاکستان، افغانستان اور یمن سے ہے۔ آپ سمجھتے ہیں کہ ان ممالک کی حکومتیں اپنے اپنے شہریوں کی رہائی کے لیے کچھ کر سکتی ہیں؟ کیا یہ حکومتیں گوانتانامو میں قید اپنے شہریوں کا مناسب خیال کرتی ہیں؟

کورٹنی بش : میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ خیال کرتی ہیں یا نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ حکومتیں بیان بازی کی حد تک ضرور کہیں گی کہ وہ اپنے ان شہریوں کا خیال رکھتی ہیں، جو کسی مقدمے کے بغیر ہی قید ہیں۔ پاکستان اور افغانستان جیسے ممالک کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ واشنگٹن حکومت انہیں انتہائی عدم استحکام کا شکار تصور کرتی ہے۔ ان ممالک کے حوالے سے امریکی حلقوں میں ایک عمومی خیال پایا جاتا ہے کہ گوانتانامو سے آزادی پانے والے ان قیدیوں کو رہا کرنے کے بعد ان کے ممالک واپس بھیجا گیا تو انتہا پسندگروپ انہیں مائل کر سکتے ہیں۔اس لیے واشنگٹن حکومت ان ممالک سے تعلق رکھنے والے قیدیوں کو واپس بھیجنے کے لیے رضا مند نہیں ہو گی۔

بدھ کے دن گوانتانامو بے کی قید کے قیام کو دس برس مکمل ہو گئےتصویر: AP

آپ یمن کی مثال لے لیں، گوانتانامو بے کے جیل خانے میں قید ستاون یمنی قیدیوں کو آزادی کا پروانہ مل چکا ہے لیکن وہ ابھی تک رہا نہیں کیے گئے کیونکہ امریکی صدر باراک اوباما نے ان قیدیوں کو یمن واپس روانہ کرنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ امریکی حکومت کے نزدیک یمن میں عدم استحکام کے نتیجے میں ان قیدیوں کو واپس بھیجنا انتہائی خظرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ اور میرے خیال میں یہی مسئلہ پاکستان اور افغانستان کے ساتھ بھی ہے۔

ڈوئچے ویلے: کیا پاکستان اور افغانستان گوانتانامو میں قید اپنے شہریوں کی واپسی کے لیے دباؤ ڈال سکتے ہیں؟

کورٹنی بش : میرے خیال میں پاکستان اور افغانستان جیسے ممالک کے پاس ایسے مواقع انتہائی کم ہیں کہ وہ اس حوالے سے دباؤ بڑھا سکیں۔ اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ امریکی حکومت سمجھتی ہے کہ ان ممالک میں سول حکومتیں نہ صرف کمزور ہیں بلکہ دونوں ممالک میں قیدیوں کی واپسی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔

ڈوئچے ویلے: اگر یہ کہا جائے کہ ان ممالک میں آئندہ پانچ برس تک حالات سازگار نہیں ہوتے تو کیا امریکی حکومت پھر بھی ان ممالک کے شہریوں کو حراست میں ہی رکھے گی؟

کورٹنی بش :میرے خیال میں یہ صرف ایک بہانہ ہی ہو گا۔گوانتانامو کے بہت سے قیدی اپنے گھر والوں سے ملنے، ملازمتیں ڈھونڈنے اور معمول کی زندگی شروع کرنے کے متمنی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ قیدی واپس اپنے ممالک میں جا کر دہشت گردی میں ملوث ہو سکتے ہیں،تو یہ ایک بہانہ ہو گا۔ پاکستان اور افغانستان جیسے ممالک آئندہ دو برس یا اس کے بعد بھی کوئی زیادہ بہتر نہیں ہو سکتے کہ امریکی حکام کے تحفظات کا خاتمہ کیا جا سکے۔ امریکہ ان ممالک سے تعلق رکھنے والے قیدیوں کو کسی تیسرے ملک میں منتقل کرنےکی کوشش بھی نہیں کر رہا ہے ۔

ڈوئچے ویلے: اس مفروضے میں کتنی صداقت ہے کہ گوانتانامو سے آزاد کیے جانے والے قیدی ایک مرتبہ پھر سے القاعدہ یا طالبان باغیوں سے جا ملیں گے؟

کورٹنی بش : پہلی بات تو یہ ہے کہ گوانتانامو میں قید بہت سے افراد ایسے ہیں، جن کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ ان میں سے بہت سے ایسے مطلوب افراد تھے، جنہیں صرف انعامات کے لیے امریکہ کو فروخت کیا گیا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ امریکہ کے مفاد میں ہے کہ وہ ان قیدیوں کو خطرناک ثابت کرے تاکہ انہیں اپنی قید میں رکھنے کا جواز تلاش کیا جا سکے۔ ہمارے ادارے کے مطابق امریکہ نے گوانتانامو بے کے قیدیوں کو رہا کرنے کے بعد ان کے دوبارہ دہشت گرد گروہوں سے جا ملنے کی جو تعداد بتائی ہے، وہ درست نہیں ہے بلکہ اسے بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا ہے۔ جیسا میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ یہ قیدی معمول کی زندگی بسر کرنے کے خواہاں ہیں۔

یہ جیل خانہ افغانستان پر عسکری کارروائی کے بعد 2002 ء میں قائم کیا گیا تھاتصویر: AP

ڈوئچے ویلے: گوانتانامو بے کے حراستی قید خانے کی وجہ سے کیا پاکستان اور افغانستان میں امریکہ کے خلاف عوامی جذبات میں اضافہ ہوا ہے اور کیا یہ جیل خانہ دہشت گردوں کو نئی بھرتیوں کے مواقع فراہم کرتا ہے؟

کورٹنی بش: میں نہیں سمجھتا کہ اس قید خانے کو قائم رکھنے یا پاکستان میں ڈرون حملے کرنے سے امریکہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں کوئی خاص کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔ کیونکہ دہشت گرد گروہ انہی باتوں کو ایک بہانہ بنا کر امریکہ مخالف جذبات کو بھڑکاتے ہیں اور نئی بھرتیاں کرتے ہیں۔ دس برس تک لوگوں کو بغیر کسی مقدمے کے ایک جیل خانے میں قید رکھنا، دراصل ان ممالک کے نوجوان لوگوں میں بھی غصے کا سبب بنا ہے۔

ڈوئچے ویلے: گوانتانامو سے آزاد ہونے کے بعد کیا قیدی معمول کی زندگی شروع کرنے کے قابل ہو سکیں گے؟

کورٹنی بش: میرے خیال میں بہت سے قیدی یہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ میں آپ کو اپنے ایک مؤکل کے بارے میں بتا سکتا ہوں۔ ہمارا ایک مؤکل محمد الگھارانی Mohammed el Gharani چودہ برس کا تھا، جب اسے پکڑ کر اس جیل خانے میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ اس کا تعلق چاڈ سے ہے۔ وہ آزاد ہو چکا ہے۔ دوران حراست وہ کئی نفسیاتی و جسمانی مسائل کا شکار ہو گیا تھا۔ لیکن اب وہ معمول کی زندگی گزارنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے، جس میں کافی حدتک وہ کامیاب بھی ہے۔

انٹرویو: ڈیرن مارا

ترجمہ : عاطف بلوچ

ادارت: ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں