1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گوانتانامو جيل جلد بند نہيں ہو گی

11 جنوری 2012

دس سال قبل امريکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے پہلے 20 قيدی گوانتانامو کی فوجی جيل ميں لائے گئے تھے۔ خاص طور پر شروع ميں اس جيل کے قيديوں سے غير انسانی سلوک پر دنيا بھر ميں احتجاج کيا گيا۔

تصویر: AP

امريکہ کی قدامت پسند Heritage Foundation کے دفاعی اور سلامتی کے امور کے ماہر جيمز کيرافانو کا کہنا ہے کہ گوانتانامو کی جيل ايک وقتی فيصلہ تھا کيونکہ اُس وقت کے حالات کے تحت ان قيديوں کے بارے ميں کوئی اور حل نہيں تھا، جنہيں ايک ايسی جنگ ميں گرفتار کيا گيا تھا، جس ميں فريق مخالف کوئی ملک نہيں تھا۔ تو کيا ان پر جنگی قيديوں کی اصطلاح لاگو نہيں ہوتی تھی؟ جيمز کيرافانو نے کہا کہ گوانتانامو کے ناقد جس سول مقدمے کا مطالبہ کر رہے ہيں وہ ممکن نہيں تھا: ’’دنيا کا کوئی بھی ملک يہ نہيں سمجھتا کہ کسی جنگ ميں کيے جانے والے جنگی جرائم کی تحقيقات اور تعزيراتی کارروائی اُسی طرح سے کی جا سکتی ہے جيسے کہ سول ماحول ميں ہوتی ہے۔‘‘

گوانتانامو ميں ايک قيدیتصویر: dapd

اسی ليے صدر جارج بش کے دور ميں قيديوں کو گوانتانامو لانے کا فيصلہ کيا گيا تھا۔ خيال يہ تھا کہ اس طرح وہ امريکی عدالتی نظام سے باہر ہوں گے اور انہيں قيد ميں رکھا اور اُن سے پوچھ گچھ کی جا سکے گی۔ ليکن اس دوران امريکی سپريم کورٹ يہ فيصلہ دے چکی ہے کہ گوانتانامو کے قيدی بھی امريکی آئين کے تحت اپنے حقوق کا مطالبہ کر سکتے ہيں۔

گوانتانامو جيل ميں قيدیتصویر: picture-alliance/dpa

صدر باراک اوباما نے اپنا عہدہ سنبھالتے وقت يہ اعلان کيا تھا کہ وہ ايک سال کے اندر گوانتانامو جيل بند کرا ديں گے، ليکن يہ کام بہت مشکل ثابت ہوا۔ گوانتاناموکے 800 ميں سے جو 171 قيدی اب بھی وہاں بند ہيں، اُن ميں سے 89 کی رہائی کی اجازت ہے۔ ان ميں سے اکثر کا تعلق يمن سے ہے، جہاں کی غير مستحکم صورتحال اور وہاں دہشت گردوں کی کثرت کی وجہ سے ان قيديوں کو يمن نہيں بھيجا جا سکتا۔ يہ ضروری ہے کہ رہائی پانے والوں ميں سے کوئی بھی امريکہ کی سلامتی کے ليے خطرہ نہ بننے پائے۔ تمام ہی ماہرين اس کا امکان کم ہی سمجھتے ہيں کہ گوانتانامو جيل جلد بند ہو جائے گی۔

رپورٹ: کرسٹينا برگ من، واشنگٹن / شہاب احمد صديقی

ادارت: عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں