گوانتانامو جيل جلد بند نہيں ہو گی
11 جنوری 2012![](https://static.dw.com/image/15658387_800.webp)
امريکہ کی قدامت پسند Heritage Foundation کے دفاعی اور سلامتی کے امور کے ماہر جيمز کيرافانو کا کہنا ہے کہ گوانتانامو کی جيل ايک وقتی فيصلہ تھا کيونکہ اُس وقت کے حالات کے تحت ان قيديوں کے بارے ميں کوئی اور حل نہيں تھا، جنہيں ايک ايسی جنگ ميں گرفتار کيا گيا تھا، جس ميں فريق مخالف کوئی ملک نہيں تھا۔ تو کيا ان پر جنگی قيديوں کی اصطلاح لاگو نہيں ہوتی تھی؟ جيمز کيرافانو نے کہا کہ گوانتانامو کے ناقد جس سول مقدمے کا مطالبہ کر رہے ہيں وہ ممکن نہيں تھا: ’’دنيا کا کوئی بھی ملک يہ نہيں سمجھتا کہ کسی جنگ ميں کيے جانے والے جنگی جرائم کی تحقيقات اور تعزيراتی کارروائی اُسی طرح سے کی جا سکتی ہے جيسے کہ سول ماحول ميں ہوتی ہے۔‘‘
اسی ليے صدر جارج بش کے دور ميں قيديوں کو گوانتانامو لانے کا فيصلہ کيا گيا تھا۔ خيال يہ تھا کہ اس طرح وہ امريکی عدالتی نظام سے باہر ہوں گے اور انہيں قيد ميں رکھا اور اُن سے پوچھ گچھ کی جا سکے گی۔ ليکن اس دوران امريکی سپريم کورٹ يہ فيصلہ دے چکی ہے کہ گوانتانامو کے قيدی بھی امريکی آئين کے تحت اپنے حقوق کا مطالبہ کر سکتے ہيں۔
صدر باراک اوباما نے اپنا عہدہ سنبھالتے وقت يہ اعلان کيا تھا کہ وہ ايک سال کے اندر گوانتانامو جيل بند کرا ديں گے، ليکن يہ کام بہت مشکل ثابت ہوا۔ گوانتاناموکے 800 ميں سے جو 171 قيدی اب بھی وہاں بند ہيں، اُن ميں سے 89 کی رہائی کی اجازت ہے۔ ان ميں سے اکثر کا تعلق يمن سے ہے، جہاں کی غير مستحکم صورتحال اور وہاں دہشت گردوں کی کثرت کی وجہ سے ان قيديوں کو يمن نہيں بھيجا جا سکتا۔ يہ ضروری ہے کہ رہائی پانے والوں ميں سے کوئی بھی امريکہ کی سلامتی کے ليے خطرہ نہ بننے پائے۔ تمام ہی ماہرين اس کا امکان کم ہی سمجھتے ہيں کہ گوانتانامو جيل جلد بند ہو جائے گی۔
رپورٹ: کرسٹينا برگ من، واشنگٹن / شہاب احمد صديقی
ادارت: عدنان اسحاق