امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے اولین ’اسٹیٹ آف دا یونین‘ خطاب میں کہا ہے کہ مشتبہ غیر ملکی دہشت گردوں کے لیے قائم کیا گیا خلیج گوانتانامو کا امریکی حراستی مرکز بند نہیں کیا جائے گا۔
اشتہار
اپنے خطاب میں ڈونلڈ ٹرمپ نے امیگریشن سے متعلق اپنے سخت موقف کا اظہار کیا اور کہا کہ میکسیکو کے ساتھ سرحد پر دیوار کی تعمیر کی جائے گی، تاہم انہوں نے ریپبلکنز اور ڈیموکریٹس دونوں جماعتوں کے قانون سازوں سے کہا کہ وہ مل کر امیگریشن سے متعلق قانون سازی کریں۔
ٹرمپ نے اپنے اولین ’اسٹیٹ آف دا یونین‘ خطاب میں کہا، ’’آج میں سب سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ باہمی اختلافات ایک طرف رکھ دیں اور مشترکہ امور پر جمع ہو جائیں اور آپس میں اتحاد پیدا کریں۔ ہمیں ان لوگوں کی خدمت کرنا ہے، جنہوں نے ہمیں منتخب کیا ہے۔‘‘
امریکی صدر کے دور صدارت کا پہلا سال، چند یادگار لمحات
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور صدارت کا ایک برس مکمل ہو گیا ہے۔ پہلی بار صدرات کا منصب سنبھالنے کے بعد ان کے کئی ایسے متنازعہ بیانات اور فیصلے سامنے آئے جو بلا شبہ یادگار قرار دیے جا سکتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/AP Photo/E. Vucci
مسلم ممالک کے خلاف امتیازی سلوک اور عدالتی کارروائیاں
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو صدارت کا منصب سنبھالے ابھی ایک ہفتہ ہی ہوا تھا کہ اچانک سات مسلم ممالک کے شہریوں کا 90 روز کے لیے جبکہ تمام ممالک سے مہاجرت کرنے والوں پر 120 دن کے لیے امریکا آمد پر پابندی عائد کرنے کا حکم جاری کر دیا گیا، جسے بعد میں ملکی عدالت نے کالعدم قرار دے دیا
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Jones
وفاقی تحقيقاتی ادارے کے سربراہ کی اچانک معطلی
نو مئی کو اچانک امریکی تفتیشی ادارے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر جیمز کومی کو ان کے عہدے سے برخاست کر دیا گیا۔ جیمز کومی اس بات کی تحقیقات کر رہے تھے کہ آیا ٹرمپ کی الیکشن مہم میں ہیلری کلنٹن کو شکست دینے کے لیے روس کی مدد لی گئی تھی یا نہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Somodevilla
ماحولیاتی تحفظ کے عالمی معاہدے سے اخراج کا فیصلہ
یکم جون 2017 کو امریکی صدر نے اعلان کیا کہ امریکا ماحولیاتی تحفظ کے عالمی معاہدے یعنی پیرس معاہدےسے باہر نکلنا چاہتا ہے۔ تاہم اس ماہ ان کا کہنا ہے کہ امریکا چند من مانی شرائط پوری کيے جانے کی صورت میں واپس اس معاہدے میں شامل ہو سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Meissner
شمالی کوریا کو تباہ کرنے کی دھمکی
گزشتہ برس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شمالی کوریا کو تباہ کرنے کی امریکی دھمکی کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات دوبارہ شدید کشیدہ ہوگئے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/E. Contini
ٹیکس اصلاحات کا نفاذ
امریکی تاریخ میں ٹیکس کی سب سے بڑی کٹوتی کا اصلاحاتی بل بھی صدر ٹڑمپ کے دور صدارت میں نافذ کيا گيا۔ یہ ٹیکس کے نظام میں 1986ء کے بعد کی جانے والی یہ سب سے بڑی اصلاحات تھیں۔
چھ دسمبر کو امریکی صدر نے یروشلم کو اسرائیل کا دارلحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کیا جس کے بعد مسلم ممالک کا شدید ردعمل سامنے آیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N.Shiyoukhi
6 تصاویر1 | 6
اپنی اس ایک گھنٹہ بیس منٹ کی تقریر میں ٹرمپ نے امریکی اقتصادیات میں بہتری اور ملک میں انفراسٹرکچر کی تعمیر نو پر بھی زور دیا۔ اپنی اس تقریر میں تاہم ٹرمپ نے صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت سے متعلق کوئی تبصرہ نہ کیا۔ ٹرمپ اس سے قبل ایسی خبروں کو رد کرتے آئے ہیں۔
ٹرمپ کی تقریر ان کی انتظامیہ کی پالیسیوں سے متعلق کئی اہم پہلوؤں کا احاطہ نہ کر سکی، تاہم عوامی سطح پر ان کے مدبرانہ اور منجھے ہوئے طریقِ گفت گو کو پسند کیا گیا۔ سی این این اور ایس ایس آر ایس کے ایک عوامی جائزے میں قریب 48 فیصد امریکی عوام نے اسے ’نہایت مثبت‘ جب کہ قریب 22 فیصد نے ’مثبت‘ قرار دیا۔
ٹرمپ کی تقریر کے موقع پر کانگریس میں بیٹھے قانون سازوں کے درمیان موجود تقسیم بھی واضح دکھائی دی، جہاں ٹرمپ کی تقریر میں بارہا ریپبلکن قانون سازوں نے تالیاں بجا اور نشستوں سے کھڑے ہو کر ان کا خیرمقدم کیا وہیں اس دوران ڈیموکریٹ رہنما اپنی جگہوں پر خاموشی سے بیٹھے رہے۔ امیگریشن کے موضوع پر ٹرمپ نے بات کی، تو ایوان میں ڈیموکریٹ رہنما نے ان پر ’ہوٹنگ‘ تک بھی کی۔
چین کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پانچ جملے
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے چبھتے ہوئے بیانات کے لیے خاص شہرت رکھتے ہیں۔ ایسے ہی کچھ جملے انہوں نے چین کے لیے بھی کہے۔ ’چین نے امریکا کو تباہ کر دیا‘ کے بیان سے لے کر ’ آئی لو یو چائنہ‘ تک ٹرمپ کے تبصرے رنگا رنگ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Harnik
’ آئی لو یو چائنہ‘
سن دو ہزار سولہ میں امریکی صدر کا منصب سنبھالنے کے فوراﹰ بعد ہی ٹرمپ نے ایک امریکی نشریاتی ادارے کو بتایا تھا،’’ مجھے چین سے محبت ہے۔‘‘ لیکن جہاں تک بیجنگ حکومت سے متعلق اُن کے تبصروں کا تعلق ہے تو وہ کبھی مثبت نہیں رہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/A. Harnik
’ چین ہمارے ملک کا ریپ کر رہا ہے‘
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا چین تعلقات کو بیان کرتے ہوئے ہمیشہ سخت زبان کا استعمال کیا ہے۔
اپنی صدارتی مہم کے دوران ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا تھا،’’ ہم چین کو اپنا ملک برباد کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے جو وہ کر رہا ہے۔‘‘
تصویر: Feng Li/AFP/GettyImages
’کوریا دراصل چین کا حصہ ہوا کرتا تھا‘
رواں برس اپریل میں چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ ملاقات کے بعد وال اسٹریٹ جرنل کو ایک انٹرویو میں صدر ٹرمپ نے کہا،’’ آپ جانتے ہیں کہ چین اور کوریا کی تاریخ ہزاروں سال اور کئی جنگوں پر محیط ہے۔ کوریا دراصل چین کا حصہ ہوا کرتا تھا۔‘‘
تصویر: picture-alliance/AP Photo/N. H. Guan
‘انہیں میکڈونلڈز لے جائیں‘
سن 2015 میں ایک ریلی سے خطاب میں ٹرمپ نے کہا،’’ اگر آپ سمارٹ ہوں تو چین سے جیت سکتے ہیں لیکن ہمارے لوگوں کو اس کا پتہ نہیں ہے۔ ہم چین کے سربراہان کو سرکاری ڈنر دیتے ہیں۔ ہم انہیں اسٹیٹ ڈنر کیوں دیں؟ میں کہتا ہوں کہ انہیں میکڈونلڈز لے جائیں اور بھر دوبارہ مذاکرات کی میز پر واپس آ جائیں۔‘‘
سن دو ہزار گیارہ میں چین کی سرکاری نیوز ایجنسی شنہوا کے ساتھ ایک مبینہ انٹرویو میں ٹرمپ نے کہا،’’ میں نے چین کے بارے میں سینکڑوں کتابیں پڑھ رکھی ہیں۔ میں نے چینی لوگوں کے ساتھ بہت روپیہ بنایا ہے۔ میں چینی ذہنیت کو اچھی طرح جانتا ہوں۔‘‘ تاہم بعض افراد کا ماننا ہے کہ یہ انٹرویو کبھی ہوا ہی نہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Harnik
’ گلوبل وارمنگ کا ذمہ دار چین ہے‘
سن 2012 میں ٹرمپ نے گلوبل وارمنگ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ چین نے امریکا کے اقتصادی مفادات کو ضرب لگانے کے لیے یہ منصوبہ بنایا ہے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا،’’ گلوبل وارمنگ کی تخلیق چین کے ہاتھوں اور چینی عوام کے لیے ہوئی تاکہ امریکی مصنوعات کو عالمی منڈیوں میں بے وقعت کیا جا سکے۔‘‘
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Wong
6 تصاویر1 | 6
ٹرمپ نے اپنی تقریر میں اپنی خارجہ پالیسی سے متعلق ایک خاکہ بھی واضح کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ شمالی کوریا کے جوہری میزائل امریکی سلامتی کے لیے خطرہ بنتے جا رہے ہیں، ’’ہم نے ایک مہم شروع کر رکھی ہے، جس کے تحت شمالی کوریا پر مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔‘‘ انہوں نے اپنی تقریر میں شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن پر بھی تنقید کی۔
ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے ایک صدارتی حکم نامے کے ذریعے گوانتانامو میں قائم امریکی عسکری حراستی مرکز آئندہ بھی قائم اور زیر استعمال رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سابق صدر باراک اوباما نے اس حراستی مرکز کی بندش کا اعلان کیا تھا کیوں کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں اس حراستی مرکز پر شدید تنقید کرتی تہی ہیں، تاہم صدر اوباما بھی اپنے آٹھ سالہ دور حکومت میں یہ حراستی مرکز بند نہ کر پائے تھے۔