1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گوانتانامو کا قیدی اب ایک دوکاندار

15 اگست 2018

احمد احجمام نے بارہ سال سے زائد عرصہ گوانتانامو جیل میں گزارا۔ اسے دہشت گرد ہونے کے شبے پر جیل بھیجا گیا تھا۔ اب قید سے آزاد ہونے کے بعد اس نے ایک نئی زندگی کا آغاز کیا ہے۔

Uruguay Ahmed Adnan Ahjam
تصویر: Getty Images/AFP/P.P Brune

احجام نے'احمد احجام عرب گیسٹرونومی‘ کے نام سے یوروگوائے کے دارالحکومت مونٹے ویدے او میں ایک چھوٹے سے کاروبار کا آغاز کیا ہے۔ احجام اپنی دکان پر زیادہ تر کھانے کی میٹھی اشیاء فروخت کرتا ہے۔ 41 سالہ احجام شام کے  شمالی شہر حلب میں پیدا ہوا تھا۔ 2014ء میں وہ امریکا اور یوروگوائے کی حکومت کے درمیان ایک معاہدہ طے پانے کے بعد گوانتانامو جیل سے اس جنوبی امریکی ملک پہنچ گیا تھا۔

احجام ان 780 قیدیوں میں شامل تھا جنہیں 2002ء میں امریکا نے گوانتنامو جیل بھیج دیا تھا۔ کچھ عرصہ ہوا ہے کہ امریکا ان قیدیوں کو اس حراستی مرکز سے منتقل کرنے کے لیے مختلف ممالک کے ساتھ مذاکرات کر رہا تھا۔ گوانتانامو بے قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی وجہ سے کافی متنازعہ رہا ہے۔

احجام اب اپنی دکان پر بکلاوا کے علاوہ یوروگوائے کی مقامی مٹھائیاں بھی فروخت کرتا ہے۔ اس نے اپنی دکان کے افتتاح کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،’’ یہ میرے لیے ایک خواب پورا ہونے کے مانند ہے، میری نئی زندگی میں یہ بہت اہم قدم ہے۔ میں یوروگوائے کے لوگوں کا شکر گزار ہوں، میں بہت محنت کروں گا۔‘‘

امریکی وزارت دفاع کے حکام کا ماننا ہے کہ اس نے افغانستان میں تورا بورا کی  غاروں میں القاعدہ کے سابق رہنما اسامہ بن لادن کے لیے امریکی اتحادی افواج کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا تھا۔ اس محکمے کے ریکارڈ کے مطابق وہ پاکستانی فوج کی کارروائیوں سے بچ کر بھاگ نکلا تھا۔ کچھ عرصہ بعد جنوری 2002ء میں اسے افغانستان میں امریکی حکام کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ اسی سال جون میں احجام گوانتانامو بے کی جیل میں بھجوا دیا گیا تھا۔ 

احجام کی زندگی مگر ایک اچھی کہانی ہے، اسے یوروگوائے کی حکومت نے امریکا سے ملنے والی امداد کے بدلے میں قبول کیا تھا۔ احجام کے ساتھ گوانتانامو پہنچنے والے چھ اور قیدیوں کے لیے  یوروگوائے میں انضام اور یہاں نوکری کی تلاش آسان ثابت نہیں ہو رہی۔ لیکن احجام یہیں رہنا چاہتا ہے۔ اس کی دکان کو شہر کی ایک امدادی ادارے کی مدد سے تعمیر کیا گیا ہے۔ اس ایجنسی کی ایک اہلکار ویرونیکا کا کہنا ہے، ’’ شام میں وہ ایک سنار تھا، اب اس کے لیے یہ ایک نیا بازار اور نیا وقت ہے۔ اس کے خیال میں اس کے ملک کا پکوان یہاں اس کے روزگار کا ذریعہ بن سکتا ہے۔‘‘

ب ج / ع ب (اے ایف پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں