1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
انسانی حقوقشمالی امریکہ

گوانتانامو کیمپ میں زیادتیاں: 'امریکہ کو معافی مانگنا چاہیے'

27 جون 2023

اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ نے گوانتانامو کی امریکی جیل میں ماضی کی گئی زیادتیوں کے لیے جوابدہی طے کرنے اور اس میں پائے جانے والی 'ساختی خامیوں' کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

Militärgefängnis I Guantanamo
تصویر: T. McCoy/U.S. Navy/Getty Images

اقوام متحدہ کی ایک تفتیش کار نے گوانتانامو بے جیل کے قیدیوں پر کیے گئے تشدد پر امریکہ سے معافی مانگنے، بدسلوکی کے لیے احتساب کو یقینی بنانے اور کیوبا میں واقع امریکہ کے زیر انتظام بدنام زمانہ اس حراستی مرکز کو بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

پاکستان سے گرفتار شدہ گوانتانامو کا قیدی سعودی عرب منتقل

اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ اور تفتیش کار فیونلا نی اولین نے پیر کے روز اپنی رپورٹ جاری کرتے ہوئے، امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کا اس بات کے لیے شکریہ ادا کیا کہ اس نے رواں برس کے اوائل میں انہیں اس جیل تک رسائی مہیا کی۔ تاہم انہوں نے قیدیوں کے ساتھ ہونے والی خلاف ورزیوں کے تدارک کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

ربانی برادران گوانتانامو بے جیل سے رہا، جلد پاکستان منتقلی

رپورٹ میں کیا ہے؟

نی اولین نے کہا کہ سیاہ مقامات کے نام سے معروف خفیہ مقامات اور پھر اس کے بعد گوانتانامو کے اندر قیدیوں پر کیا جانے والا تشدد ہی 9/11 کے حملوں کے متاثرین کے لیے انصاف کو یقینی بنانے میں ''واحد اہم رکاوٹ'' ہے۔

پاکستانی نژاد قیدی ماجد خان گوانتانامو بے جیل سے رہا، بیلیز منتقل

نی اولین گوانتانامو بے میں امریکی حراستی مرکز کا دورہ کرنے والی اقوام متحدہ کی پہلی آزاد تفتیش کار ہیں۔ انہوں نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہاں پر اب بھی قید 30 افراد '' ظالمانہ، غیر انسانی اور ذلت آمیز سلوک کا شکار ہیں۔''

صدر بائیڈن گوانتانامو بے جیل بند کرنے کا اپنا وعدہ پورا کریں، ایمنسٹی انٹرنیشنل

فیونلا نی اولین ایک آئرش ہیں۔ وہ قانون کی پروفیسر اور اقوام متحدہ کی خصوصی تفتیش کار ہیں۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے لیے اپنی 23 صفحات پر مشتمل رپورٹ جاری کرتے ہوئے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ سن 2001 میں نیویارک، واشنگٹن اور پینسلوینیا میں ہونے والے حملے ''انسانیت کے خلاف جرائم'' تھے، جس میں تقریباً 3,000 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ 

گوانتانامو بے جیل کے پاکستانی نژاد قیدی ماجد خان کی ہولناک داستان

تاہم انہوں نے کہا کہ 9/11 کے حملوں کے بعد مبینہ مجرموں اور ان کے ساتھیوں کے خلاف امریکی تشدد اور غیر قانونی حراستیں جہاں انسانی حقوق سے متعلق بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہیں، وہیں بہت سے معاملات میں متاثرین اور زندہ بچ جانے والوں کو انصاف سے محروم کر دیا، کیونکہ تشدد کے ذریعے حاصل کی گئی معلومات کو ٹرائل میں استعمال نہیں کیا جا سکتا۔

اولین نے کہا کہ جس بھی قیدی سے ان کا سامنا ہوا، اسے انہوں نے پایا کہ وہ ''تشدد، غیر قانونی حراست اور زیادتیوں کی وجہ سے کبھی ''ختم نہ ہونے والے نقصانات'' کے ساتھ زندگی گزار رہا ہےتصویر: Bianca Otero/Zuma Wire/dpa/picture alliance

گوانتانامو بے کا حراستی مرکز سن 2002 میں امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے دور میں 11 ستمبر 2001 کو نیویارک اور واشنگٹن ڈی سی میں القاعدہ کے 9/11 کے حملوں کے بعد نام نہاد ''دہشت گردی کے خلاف جنگ'' کے دوران گرفتار کیے گئے قیدیوں کے لیے کھولا گیا تھا۔

اس جیل میں ایک زمانے میں 800 کے قریب قیدی تھے۔ تاہم اب قیدیوں کی تعداد کم ہو کر 30 رہ گئی ہے، جن میں سے نصف سے زیادہ یعنی 16 قیدیوں کو امریکی حکام نے رہائی کا اہل قرار دیا ہے۔

کیوبا میں امریکی فوجی اڈے پر واقع یہ جیل فوجی کمیشنوں کے نظام کے تحت چلتی ہے جو روایتی امریکی عدالتوں کے حقوق کی ضمانت نہیں دیتا۔

انسانی حقوق کے گروپ طویل عرصے سے گوانتانامو بے میں حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کرتے رہے ہیں، جس میں قیدیوں کو زبردستی کھانا کھلانا اور مارنا پیٹناشامل ہے۔ وہ اسے بند کرنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔

جیل میں بدسلوکی جاری

 نی اولین کی رپورٹ میں کہا گیا کہ جیل کے اندر زیادتیوں اور بدسلوکی کا عمل جاری ہے، جس میں ''تربیت، آپریٹنگ طریقہ کار، صحت کی دیکھ بھال، فیملی کونسل اور انصاف کے لیے قیدیوں کے حقوق کی تکمیل سمیت جیل کی ساختی خامیوں اور منظم من مانے طریقوں جیسے نقائص کو اجاگر کیا گیا ہے۔

نامہ نگاروں سے بات چیت کے دوران نی اولین نے کہا کہ جس بھی قیدی سے ان کا سامنا ہوا، اسے انہوں نے پایا کہ وہ ''تشدد، غیر قانونی حراست اور زیادتیوں '' کی وجہ سے کبھی ''ختم نہ ہونے والے نقصانات'' کے ساتھ زندگی گزار رہا ہے۔''

انہوں نے کہا، ''میں نے دیکھا کہ دو دہائیوں کی حراست کے بعد بھی حراست میں لیے گئے لوگوں کی تکلیف مزید گہری ہونے کے ساتھ ہی مسلسل جاری بھی ہے۔''

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے ''تنقید پر مبنی'' یہ تازہ رپورٹ اس حراستی مرکز کو بند کرنے کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہے۔

ادارے کے سکریٹری جنرل ایگنیس کالمارڈ نے کہا کہ ''جیل کی بندش، امریکی حکام سے جوابدہی، اور امریکی حکومت کے ہاتھوں قیدیوں کے ساتھ ہونے والے تشدد اور دیگر ناروا سلوک کی تلافی کا مطالبہ کرنے کا وقت تو کافی پہلے ہی گزر چکا ہے۔''

امریکہ کا رد عمل

بائیڈن انتظامیہ کا استدلال ہے کہ وہ اس جیل کو بند کرنے کے لیے جیل میں قیدیوں کی تعداد کو کم کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔ تاہم اس تازہ رپورٹ پر اس نے اپنا سخت رد عمل بھی ظاہر کیا۔

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں امریکی سفیر مائیکل ٹیلر نے اس رپورٹ پر اپنے رد عمل میں کہا، ''ہم بین الاقوامی اور امریکی ملکی قانون کے مطابق گوانتانامو میں قیدیوں کے لیے محفوظ اور انسانی سلوک فراہم کرنے کے لیے پر عزم ہیں۔''

ص ز/ ج ا (اے پی، ڈی پی اے)

گوانتانامو بے کے تجربات تصاوير کے ذريعے بيان

04:26

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں