گوانتانامو کے قیدیوں کو جرمنی لانے پر بحث
11 اپریل 2010وفاقی جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے پیر کے روز سے شروع ہونے والے امریکہ کے چار روزہ دورے سے کچھ دیر پہلے جرمنی کی اپوزیشن جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی اور ماحول دوست گرین پارٹی کی طرف سے گوانتانامو کے قیدیوں کو جرمنی لانے کے لئے میرکل حکومت پردباؤ بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔
ایس پی ڈی کے پالیمانی دھڑے کے نائب سربراہ اولاف شولز کے بقول’’جرمنی کو امریکی صدر اوباما کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہئے‘‘۔ گرین پارٹی کی سربراہ کلاؤڈیا روتھ نے میرکل حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس معاملے میں اپنی جماعت کرسچن ڈیمو کریٹک یونین سی ڈی یو کے ہارڈ لائنرز یا سخت گیر موقف کے حامل رہنماؤں کے آگے نہ جھکیں۔ میرکل کی جماعت سی ڈی یو اور کرسچن سوشل یونین سی ایس یو کے متعدد لیڈران گوانتانامو کے قیدیوں کو کیوبا کی جیل سے جرمنی منتقل کرنے کے بارے میں تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ عمل جرمنی کی سلامتی کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
دریں اثناء جرمنی کے وزیر داخلہ اور سی ڈی یو کے سیاستداں تھوماس ڈے مائزئیرنے دوبارہ اس معاملے کی سنجیدگی سے چھان بین پر زور دیا ہے، جبکہ سی ڈی یو کی حکومت والے صوبے اس کی سخت مخالفت کر رہے ہیں۔ دیں اثناء جرمنی کے ایک خاص حیثیت کے حامل شہر ہیمبرگ کی سینیٹ نے معروف جرمن روزنامے ’بلڈ‘ میں چھپنے والی اُس خبر کو مسترد کر دیا ہے، جس کے مطابق شہر ہیمبرگ گوانتانامو کے تین قیدیوں کو اپنے ہاں لانے کے بارے میں معاملات کی تحقیقات کر رہا ہے۔ کیوبا کی بدنام زمانہ امریکی جیل ’گوانتانامو‘ میں سالوں سے مبینہ دہشت گرد بغیر کسی مقدمے کی کارروائی کے مقید ہیں۔ صدر اوباما نے اقتدار سنبھالتے ہی اس حراستی کیمپ کو بند کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا، تاہم امریکی صدر اس سلسلے میں اپنے اتحادیوں سے معاونت کی امید وابستہ کئے ہوئے ہیں۔
ہفتے کے روز جرمن اخبار’بلڈ‘ میں شائع ہونے والی ایک خبر نے یہ تاثر دیا تھا کہ غالباً گوانتانامو کے تین قیدیوں کو جرمنی کے ایک اہم تجارتی اور ثقافتی شہر ہیمبرگ منتقل کیا جائے گا اور ہیمبرگ انتظامیہ ان تینوں قیدیوں کے قیام کے بندوبست پر غور وخوض کر رہی ہے۔ تاہم ہیمبرگ کی سینیٹ کی ایک ترجمان کرسٹین برویر نے اس خبر کی تردید کرتے ہوئے اسے محض قیاس آرائی قرار دیا ہے۔ کرسٹین نے اس امر کی بھی وضاحت کردی ہے کہ اس بارے میں ہیمبرگ شہر کے مئیر اور سی ڈی یو کے سیاستدان اولے فون بوئسٹ اور انگیلا میرکل کے مابین کوئی بات چیت نہیں ہوئی ہےجبکہ جرمنی کے وزیر داخلہ، گوانتانامو کی جیل کے قیدیوں کو جرمنی لانے کے امکانات کے بارے میں کہہ چکے ہیں کہ وہ اس سلسلے میں بنیادی چھان بین کے لئے تیار ہیں۔ اخبار راسنشر پوسٹ میں چھپنے والے ایک بیان میں جرمن وزیر داخلہ کا کہنا تھا: ’’میں سمجھتا ہوں، جب نیٹو کا کوئی پارٹنر ملک، خاص طور سے سب سے اہم اتحادی امریکہ ہم سے مدد کا طلبگار ہو تو ہمیں مشترکہ ذمہ داری سمجھتے ہوئے اور اظہار ہمدردی کے طور پر کم از کم معاملے کی چھان بین ضرور کرنا چاہئے۔ میں اسے ایک قدامت پسند اخلاقی فرض سمجھتا ہوں۔‘‘
اخبار ’بلڈ‘ میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق ممکنہ طور پر جرمن شہر ہیمبرگ لائے جانے والے گوانتانامو کے تین قیدیوں میں سے دو فلسطینی اور ایک شامی باشندہ شامل ہوگا۔ ان میں سے ایک 34 سالہ فلسطینی اور حماس کا سابق سرکردہ اہلکار ہے، جس نے مبینہ طور پر افغانستان میں دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے کیمپ میں تربیت حاصل کی تھی۔ دو دیگر قیدیوں کو 2001 ء اور 2002 ء میں افغانستان میں امریکی فوجیوں نے گرفتار کر لیا تھا۔
رپورٹ : کشور مصطفیٰ
ادارت : عاطف توقیر