1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گوانتا نامو بے جیل کے قیدیوں کی رہائی کی راہ میں مشکلات

11 جنوری 2012

گوانتا نامو بے جیل کے قیام کے دس برس مکمل ہونے پر ڈوئچے ویلے نے برطانوی قانونی ادارے Reprieve سے وابستہ کورٹنی بش کا انٹرویو کیا جو اس بدنامہ زمانہ قید خانے کے 15 قیدیوں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

تصویر: dapd

ڈوئچے ویلے۔ اس جیل میں دنیا بھر کے قریب بیس ممالک سے تعلق رکھنے والے قیدیوں کو رکھا گیا تھا جن پر بین الاقوامی دہشت گردی کا الزام لگایا گیا۔ ان میں سے بیشتر کو بعد میں رہا کر دیا گیا مگر اب بھی 171 قیدیوں کے مقدر کا فیصلہ نہیں ہوسکا ہے۔ وہ کونسی بڑی مشکلات ہیں جو اُن پندرہ قیدیوں کی رہائی کی راہ میں حائل ہیں، جن کی آپ نمائندگی کر رہے ہیں؟

کورٹنی بش۔ گوانتانامو بے جیل کے تمام قیدیوں کی رہائی کی راہ میں کچھ بڑی رکاوٹیں ہیں۔ اول یہ ہے کہ ان قیدیوں کے حوالے سے امریکی عدالتی نظام خاصا کمزور ہے۔ گزشتہ کچھ سالوں کے دوران ہم نے دیکھا کہ حکومت کو یہ حق دیا گیا کہ وہ ان قیدیوں کو گوانتا نامو بے میں رکھ سکے۔ اس کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ امریکی عدالتی نظام کو خودمختار ہونا چاہیے مگر ہم نے دیکھا کہ کانگریس اور مقننیٰ سے سیاسی دباؤ عدلیہ پر ڈالا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان قیدیوں کے وکلاء نے قانونی صورتحال کی بہتری تک انتظار کرنے کا فیصلہ کیا۔

ڈویچے ویلے۔ کیا ایسی امیدیں ہیں کہ قانونی نظام ٹھیک ہوجائے گا اور یہ مقدمے آگے بڑھ سکیں گے؟

کورٹنی بش۔ گزشتہ مقدمے کو دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ امریکی عدالتوں میں گوانتا ناموبے جیل کے قیدیوں کے مقدمات اونچ نیچ کا شکار رہے، کبھی قیدیوں کے حق میں، کبھی مخالفت میں، کبھی بہتر اور کبھی ابتر۔ رواں سال کے انتخابات اور بعض دیگر امور کی بنیاد پر ہمیں رواں سال کسی بڑی تبدیلی کی امید نہیں۔

ڈویچے ویلے۔ کیا پاکستان اور افغانستان جیسے ممالک ان قیدیوں کی رہائی کے لیے دباؤ ڈال سکتے ہیں؟

گوانتا نامو بے جیل کے قیدیوں کی رہائی کے حق میں منعقدہ ایک مظاہرے کا منظرتصویر: picture-alliance/Süddeutsche

کورٹنی بش۔ عوامی سطح پر تو یہ ممالک کہتے ہیں کہ انہیں گوانتا نامو بے جیل میں اپنے شہریوں کی موجودگی پر تحفظات لاحق ہیں وغیرہ۔ پاکستان اور افغانستان کا معاملہ ایسا ہے کہ امریکہ یہاں کی حکومتوں کو خاصا غیر مستحکم تصور کرتا ہے اور ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ یہاں پر القاعدہ اور طالبان پھر ان افراد کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کریں گے تو ظاہر ہے کہ امریکہ نہیں چاہے گا کہ ان افراد کو واپس وہا‌ں بھیجا جائے۔

ڈوئچے ویلے۔ ان ممالک کی صورتحال تو مستقبل قریب میں تبدیلی ہوتی دکھائی نہیں دیتی تو کیا امریکی انتظامیہ اسے جواز بنا کر قیدیوں کو مزید گوانتا نامو بے جیل میں رکھ سکتی ہے؟

کورٹنی بش۔ میرے خیال میں یہ ایک بہانہ ہوگا کیونکہ گوانتا نامو بے جیل کے بہت سے قیدی محض واپس جاکر اپنے اہل خانہ سے ملنا چاہتے ہیں اور معمول کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔

ڈوئچے ویلے۔ گوانتا نامو بے جیل کی وجہ سے افغانستان اور پاکستان میں امریکہ کے بارے میں کیا تاثر قائم ہوتا ہے؟

کورٹنی بش۔ میرے خیال میں گوانتا نامو بے جیل کو بند نہ کرنے سے امریکہ ان ممالک میں اپنے تاثر کے حوالے سے بہت اچھا کام نہیں کر رہا، دہشت گرد گروپ اسے جواز بنا کر نئی بھرتیاں کر رہے ہیں۔

انٹرویو: ڈیرن مارا

ترجمعہ :شادی خان سیف

ادارت : عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں