سابق سوویت رہنما میخائل گورباچوف کی آج انتہائی سادہ انداز سے آخری رسومات ادا کر کے تدفین کیا جا رہا ہے۔ انہیں نہ سرکاری اعزاز دیا گیا اور نہ صدر ولادیمیر پوٹن ان کی آخری رسومات میں شریک ہوئے۔
اشتہار
غیرمعمولی اصلاحات کے ذریعے دنیا سے سردجنگ کا خاتمہ کرنے والے میخائل گورباچوف کی آج نہایت سادگی سے تدفین کیا جا رہا ہے۔ اس تقریب میں صدر ولادیمیر پوٹن کی شریک نہ ہونا اور ماسکو حکومت کی جانب سے گورباچوف کو سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کرنے سے انکار کو سیاسی ماہرین روسی سیاست کی بدلتی جہت سے تعبیر کر رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق عالمی سطح پر جہاں رہنما کے طور پر دیکھا جاتا ہے، وہیں روس میں انہیں سوویت یونین کے خاتمے اور ساتھ ہی معاشی بحران سے بھی جوڑا جاتا ہے۔ سوویت یونین کے انہدام سے روس میں لاکھوں افراد خط غربت سے نیچے چلے گئے تھے۔
جمعرات کے روز صدر پوٹن نے ماسکو کے ایک ہسپتال میں فوت ہونے والے گورباچوف کے تابوت پر پھول چڑھائے تاہم ماسکو حکومت کی جانب سے بیان میں کہا گیا تھا کہ صدر اپنے کاموں میں مصروف ہونے کی وجہ سے گورباچوف کی آخری رسومات میں شرکت نہیں کر سکیں گے۔
کریملن کا کہنا تھا کہ صدر پوٹن ہفتے کے روز مختلف بین الاقوامی ٹیلی فون کالز کے علاوہ ، مختلف کاروباری ملاقاتوں اور اگلے ہفتے روس کے مشرقی خطے میں منعقد ہونے والے بزنس فورم کی تیاری میں مصروف رہیں گے۔
گورباچوف منگل کے روز اکیانوے برس کی عمر میں انتقال کر گئے تھے اور انہیں ماسکو کے نودووچی قبرستان میں ان کی اہلیہ رایسہ کے پہلو میں دفن کیا جا رہا ہے۔ تدفین سے قبل ان کی آخری رسومات کریلمن کے قریب ہاؤس آف یونین کے پلر ہال میں ادا کی جا رہی ہیں۔ یہ ٹھیک وہ مقام ہے جہاں سوویت دور سے اب تک تمام اسٹیٹ فیونرلز منعقد ہوتی رہی ہیں۔
ہفتے کے روز گورباچوف کے آخری دیدار کے لیے سینکڑوں افراد گلدستوں کے ساتھ پہنچے۔ اس موقع پر گورباچوف کی صاحب زادی اِرینا اور دو نواسیاں بھی تابوت کے قریب موجود تھی۔
اشتہار
سرکاری طور پر تدفین نہیں
گو کہ گورباچوف کی تدفین کے لیے چنا گیا مقام انتہائی اہم ہے جب کہ ماسکو حکومت کے ترجمان کے مطابق اس موقع پر اعزازی گارڈز اور حکومتی تعاون سے انتظام و انصرام ہو رہا ہے، تاہم گورباچوف کی تدفین مکمل سرکاری اعزاز کے ساتھ نہیں کی جا رہی۔
مکمل سرکاری اعزاز کے ساتھ تدفین کے اعلان پر ایک طرف تو خود صدر ولادیمیر پوٹن کا آخری رسومات میں شرکت کرنا پڑتی اور ساتھ ہی بین الاقوامی رہنماؤں کو مدعو کرنا پڑتا۔ تاہم یوکرین کے ساتھ جاری جنگ کے تناظر میں ماسکو حکومت ایسی کسی بھی سرگرمی سے اجتناب برت رہی ہے۔
تاريخ کا ’رخ بدلنے والے رہنما‘ گورباچوف کو خراج عقيدت
سابق سوويت يونين کے صدر ميخائل گورباچوف انتقال کر گئے ہيں۔ کئی عالمی رہنماؤں نے سرد جنگ کے خاتمے کے ليے ان کی کوششوں سميت ان کی کثير الجہتی سوچ اور جرات کی تعريف کی ہے۔
تصویر: Kirill Kudryavtsev/AFP/Getty Images
روسی صدر کا اظہار افسوس
روسی صدر ولاديمير پوٹن نے سابق سوويت رہنما ميخائل گورباچوف کی وفات پر افسوس کا اظہار کيا۔ ان کی جانب سے يہ تعزيتی پيغام منگل تيس اگست کی شب جاری کيا گيا۔ پوٹن کے ترجمان کے مطابق روسی صدر بدھ کو ٹيلی گرام کے ذريعے گورباچوف کے اہل خانہ اور دوست احباب کو تفصيلی پيغام ارسال کريں گے۔
تصویر: Sergei Bobylev/TASS/dpa/picture alliance
گورباچوف دور انديش انسان تھے، جو بائيڈن
امريکی صدر جو بائيڈن نے کہا، ’’ميخائل گورباچوف ايک دور انديش انسان تھے۔ سابق سوويت يونين کے رہنما کے طور پر انہوں نے امريکی صدر رونلڈ ريگن کے ساتھ مل کر دونوں ممالک کے جوہری ہتھياروں ميں کمی لانے کے ليے کام کيا۔ کئی سال کی ظالمانہ سياسی جارحيت کے بعد انہوں نے جمہوری اصلاحات کو تسليم کيا۔ اس کا نتيجہ کئی ملين لوگوں کے ليے ايک زيادہ پر امن اور آزاد دنيا کے شکل ميں نکلا۔‘‘
تصویر: Evan Vucci/AP/dpa/picture alliance
گورباچوف نے تاريخ کا رخ بدلا، گوٹيرش
اقوام متحدہ کے سيکرٹری جنرل انٹونيو گوٹيرش نے سوويت صدر کو ان الفاظ ميں خراج تحسين پيش کيا، ’’ميں ميخائل گورباچوف کے گزر جانے کی خبر پر کافی رنجيدہ ہوں۔ وہ اپنی طرز کے ايک رہنما تھے، جنہوں نے تاريخ کا دھارا بدلا تھا۔ سرد جنگ کے پر امن خاتمے کے ليے انہوں نے بہت کچھ کيا۔ دنيا آج ايک کثير الجہتی سوچ کے حامل اور امن کے ليے انتھک محنت کرنے والے عالمی رہنما سے محروم ہو گئی ہے۔‘‘
تصویر: Khalil Hamra/AP Photo/picture alliance
گورباچوف نے آزاد يورپ کے قيام کی راہ ہموار کی، فان ڈيئر لائن
يورپی کميشن کی صدر ارزولا فان ڈيئر لائن نے کہا، ’’ميخائل گورباچوف ايک ايسے رہنما تھے، جن پر لوگوں کو اعتماد تھا اور وہ ان کا احترام کرتے تھے۔ انہوں نے سرد جنگ کے خاتمے کے ليے کليدی کردار ادا کيا تھا۔ اسی سے ايک آزاد يورپ کے قيام کی راہ ہموار ہوئی۔ ان کی يہ ميراث کبھی نہيں بھلائی جائے گی۔‘‘
تصویر: Virginia Mayo/AP/picture alliance
ریگن فاؤنڈیشن اینڈ انسٹی ٹیوٹ کا اظہار افسوس
’’ریگن فاؤنڈیشن اور انسٹی ٹیوٹ سوويت ليڈر ميخائل گورباچوف کی وفات پر سوگوار ہے۔ گورباچوف امریکی صدر ریگن کے سیاسی مخالف تھے، جو بعدازاں ایک دوست بن گئے۔ ہمارے خیالات اور دعائیں گورباچوف کے خاندان اور روس کے لوگوں کے ساتھ ہيں۔‘‘
تصویر: Jonathan Ernst/REUTERS
پوٹن کی جارحيت کے دور ميں گورباچوف ايک مثال، بورس جانسن
برطانوی وزير اعظم بورس جانسن نے کہا، ’’سرد جنگ کو پر امن طريقے سے خاتمے تک پہنچانے کے ليے ان کی بہادری اور دیانت داری کی میں نے ہمیشہ تعریف کی ہے۔ ايک ايسے وقت پر جب يوکرين کے خلاف پوٹن کی جارحیت جاری ہے، سوويت معاشرے کو تبديل کرنے ميں گورباچوف کا عزم اور کوششيں ہم سب کے لیے ایک مثال ہيں۔‘‘
تصویر: Frank Augstein/AP Photo/picture alliance
جاپانی وزير اعظم فوميو کشيدہ
جاپانی وزیر اعظم نے کہا ہے، ’’سوویت یونین کے سپریم لیڈر کے طور پر گورباچوف نے دوسری عالمی جنگ کے بعد ايک منقسم يورپ کو قريب لانے اور مشرق و مغرب کے مابين تناؤ کم کرنے ميں اہم کردار ادا کيا۔ جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کی حمایت کر کے وہ ايک روايت چھوڑ گئے ہيں، جو کہ ايک بہت بڑا کارنامہ ہے۔‘‘
تصویر: Kyodo/imago images
بيسوی صدی کا ايک با اثر رہنما، آسٹريلوی وزيراعظم
آسٹریلوی وزیر اعظم انتھونی البانیس کا کہنا ہے، ’’میخائل گورباچوف گرم جوش ہونے کے ساتھ ساتھ امید، عزم اور ہمت سے بھرے انسان تھے۔ ایک ایسی دنیا میں، جو منقسم تھی، وہ تعاون اور اتحاد کے حامی تھے۔ ان کی موت کے ساتھ ہم نے بيسوی صدی کا ايک با اثر رہنما کھو ديا ہے۔‘‘
تصویر: Martin Ollman/Getty Images
8 تصاویر1 | 8
دیمیری میدیویدیف شریک
سن دوہزار آٹھ سے دو ہزار بارہ تک روسی صدر رہنے والے اور روسی سکیورٹی کونسل کے نائب سربراہ دیمیتری میدیویدیف نے تاہم آخری رسومات میں شرکت کی۔ آخری رسومات میں چند غیرملکی رہنماؤں کی شرکت بھی متوقع ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ روس پر پابندیوں کے ناقد ہنگری کے وزیراعظم وکٹور اوربان ممکنہ طور پر واحد یورپی رہنما ہوں گے جو گورباچوف کی آخری رسومات میں شریک ہو رہے ہیں۔