گورے رنگ کا زمانہ، کبھی ہوگا نہ پرانا
9 اکتوبر 2009سوال یہ اٹھتا ہے آخر جنوبی ایشیائی عورتوں کو گوری رنگت کا اتنا خبط کیوں ہے اور پھر سانولی سلونی لڑکیوں کے لئے اس کا علاج کیا ہے؟ جواب ہے، گورا کرنے والی ہزاروں کریمیں، مگر کیا واقعی وہ ان کریموں کے استعمال سے اشتہارات میں ماڈلنگ کرنے والی اداکاروں کی طرح بن سکتی ہیں؟ ہم نے پوچھا دہلی میں مقیم سوینی وردا سے۔ تو وہ ایک دم سے بھڑک کر بولیں: ’’بالکل نہیں! میں ان کریموں کا استعمال بھی نہیں کرونگی اور نہ ہی کسی کو ان کے استعمال کا مشورہ دونگی۔ ایک مرتبہ میں نے ٹی وی پر ایک کریم کا اشتہار دہکھا اور بازار سے اسے خرید لائی، مگر اس کے دس دن کے استعمال کے بعد ہی میری جلد پر عجیب طرح کے دھبے پڑ گئے۔‘‘
مگر بات یہیں نہیں رک جاتی۔ سوینی تو ان چند خواتین میں سے ایک ہیں جو فیئر نس کریمز کو جلد کے لئے بہتر نہیں سمجھتیں، مگر لاکھوں خواتین اسے آزمائے ہوئے فارمولے کے طور پر دیکھتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ کہ ان کریموں کو بنانے والی کمپنیوں کی چاندی ہوگئی۔
پاکستان اور بھارت میں کچھ گھرانے تو ایسے بھی ہیں، جہاں لڑکیوں کو بچپن سے ہی گھر سے باہر نکلنے یا کھیلنے کودنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ کسی قسم کی مذہبی پابندی نہیں، بلکہ ان لڑکیوں کی ماؤں کا یہ خوف ہے کہ کہیں ان کی بیٹیاں سورج کی شعاؤں کی وجہ سے سانولی نہ ہو جائیں، مگر آج کل کے بچے کس کی بات پر کان دھرتے ہیں۔ ان ہی خود سر بیٹیوں میں سے ایک ہیں ممبئی میں مقیم 25 سالہ سیمی سنگھ سے، جن کا کہنا ہے: ’’میری اب شادی کی عمر ہوگئی ہے۔ اس لئے مجھے حسین دکھنا لازمی ہے کیونکہ ہمارے بھارتی سماج میں رشتے کے وقت وہی لڑکی خوبصورت سمجھی جاتی ہے جس کی رنگت گوری ہو اور میں ہوں سانولی رنگت والی۔ مجھے اندازہ ہے کہ اگر میری رنگت گوری ہوتی تو مجھے ارد گرد کے لوگوں سے آئے دن تعریفی کلمات سننے کو ملتے، جس سے میرے اندر ایک خاص طرح کی خود اعتمادی پیدا ہوتی۔‘‘
سیمی کو اب اپنی امّی کی وہ باتیں یاد آتی جو وہ اسے تپتی دھوپ میں گھر سے باہر نہ نکلنے کی تلقین کرتے ہوئے کہتی تھیں۔ تاہم سیمی کو ابھی بھی امید ہے کہ ان کی رنگت گوری ہوسکتی ہے اور اس انقلابی تبدیلی کے لئے وہ گورا کرنے والی کریموں کے استعمال پر یقین رکھتی ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا کہ والدین کی خوشی، سماج میں حسین دکھائی دینے کی کوشش، تعریفی کلمات سننے کی خواہش اور اچھے اور پیسے والے گھروں میں بیاہنے کی چاہت کے ساتھ ساتھ ، جنوبی ایشیائی خواتین کا گوری رنگت سے اس خبط کے پیچھے کس طرح کا احساس کمتری چھپا ہے؟
بھارت میں اشتہارات کی ایک مشہور کمپنی میں مارکیٹ ریسرچر میرا کانشک کہتی ہیں: ’’ بھارت میں گوری رنگت کا خبط دراصل یہاں برطانوی راج کا نتیجہ ہے۔ گوری رنگت میں نوآبادیاتی نظام کی طاقت اور برتری کا احساس پنہاں ہے، جس کی وجہ سے گوری جلد کو حسن کی بنیادی نشانی سمجھا جاتا ہے۔ اگر آپ دیکھیں تو ایشیائی ممالک میں سانولی اور کالی رنگت کو ایسے غریب اور محنت کش لوگوں کی زندگی سے تعبیر کیا جاتا ہے، جو سارا دن کھیتوں اور کھلیانوں میں محنت و مشقت کرتے ہیں۔ دوسری طرف گوری رنگت کو ثروت مند اور معیشی طور پر برتر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی زندگی سے تعبیر کیا جاتا ہے کیونکہ وہ ان کے مالک ہیں اور آرام و آسائش کی زندگی گزارتے ہیں۔‘‘
سوال یہ ہے کہ کیا گوری رنگت ہی سماج میں بہتر مقام حاصل کرنے کے لئے سب کچھ ہے؟ میرا کہتی ہیں: ’’جنوبی ایشیا میں اب ثقافتی طور پر گورا رنگ مثبت اقدار سے منسلک سمجھا جاتا ہے، جس میں گورے افراد کواعلٰی طبقہ اور بہتر لائف اسٹائل کا حامل سمجھا جاتا ہے۔‘‘
قارئین حیران کن امر یہ ہے کہ یہاں مغربی ممالک میں رنگ کو گندمی کرنے کی کریمیں بہت بکتی ہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کی لڑکیوں میں سانولی اور کالی رنگت بہت پاپولر ہے۔ کہیں آپ کو گوری رنگت والی خواتین خوشی خوشی دھوپ لیتی دکھائی دیں گی، تو کہیں وہ اس خیال میں ہونگی کہ ان کی شادی سانولے دولہا سے ہوجائے۔
تحریر: انعام حسن
ادارت: کشور مصطفٰی