’گوشت خوری انسانوں کو بے گھری دیتی ہے‘
7 جنوری 2021ایک اہم ماحول دوست تھنک ٹینک کا نام 'گرین‘ ہے، یہ ماحول دوستی سے متعلق کئی اہم نکات کے حوالے سے معلومات کی فراہمی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس تھنک ٹینک کی ایک ریسرچر نے حال ہی میں جرمن دارالحکومت برلن میں ماحول دوستی کے حوالے سے ایک پریزینٹیشن دی ہے۔ یہ معلوماتی پریزینٹیشن باربرا اَنمیوسِگ نے ہائنریش بؤل فاؤنڈیشن کے تعاون سے منعقدہ ایک تقریب میں پیش کی۔ اس کا عنوان 'میٹ اٹلس 2021 ‘ تھا۔
کم گوشت کھانا ماحول دوستی ہے، لیکن یہ بات اتنی درست بھی نہیں
باربرا انمیوسِگ کی دلیل
تھنک ٹینک گرین کی باربرا انمیوسگ کا کہنا ہے کہ ''دنیا میں گوشت کی صنعت کئی پیچیدگیوں اور پریشانیوں کا سبب بنتی ہے، اس کی وجہ سے عام لوگوں کو گھر بار چھوڑنا پڑتا ہے، جنگلات میں کمی کی وجہ بھی گوشت کی افزائش ہے۔‘‘ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ گوشت بھی زمین کے حیاتیاتی تنوع میں کمی کا سبب بنتا ہے اور اس سے کئی اقسام کے کیڑے مکوڑے بھی افزائش پاتے ہیں۔ باربرا انمیوسگ کا خیال ہے کہ موجودہ ماحولیاتی بحرانی صورت حال کا ایک اہم فیکٹر گوشت خوری اور اس سے جڑی صنعت ہے۔
'میٹ اٹلس 2021 ‘
باربرا انمیوسگ کی پریزینٹیشن پچاس صفحات پر مشتمل تھی۔ اس کو فرینڈز آف ارتھ جرمنی (BUND) اور ماہانہ فرانسیسی جریدے ُلے موند ڈپلومیٹک‘ کے مشترکہ تعاون سے شائع کیا گیا۔ ان پچاس صفحات میں عالمی سطح پر گوشت کی صنعت اور کھانے سے انسانوں اور زمینی سیارے پر پیدا ہونے والے اثرات اور رجحانات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
چوہے کے گوشت کا سالن مرغی سے زیادہ من پسند، لیکن کہاں؟
اس کی ایک مثال انہوں نے یہ پیش کی ہے کہ جانوروں کو بیماریوں سے بچانے کے لیے اینٹی بائیوٹک کا جس طرح استعمال کیا جا رہا ہے، اس سے انسانوں میں مختلف جراثیموں کی خلاف مدافعت کمزور پڑتی جا رہی ہے۔ یہ ایک بہت ہی خطرناک صورت حال کا پیش خیمہ ہے۔
گوشت انڈسٹری میں جرمن کردار
فرینڈز آف ارتھ جرمنی (BUND) کے چیئرمین اولاف بانڈٹ کا کہنا ہے کہ پالیسی ساز افراد کے لیے معاشرتی خواہشات کی نئی تشکیل کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ زرعی پالیسی کو بھی دور رس فیصلوں کے ساتھ ترتیب دینا اب وقت کی ضرورت ہے۔
بانڈٹ کے مطابق یورپی یونین کی گوشت اندسٹری میں جرمن کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ پورک اور دودھ کی بیس فیصد فراہمی کرتا ہے۔ دوسری جانب پندرہ سے انتیس برس کے جرمن بچوں اور بالغ افراد نے ایک سروے میں گوشت سے دوری اختیار کرنے کا اظہار کیا ہے۔
جنگلات کی بربادی اور کیڑے مکوڑوں کی افزائش
زمیں کی بڑھتی آبادی کے تناظر میں ایک بڑا علاقہ گوشت کی پیداوار کے لیے درکار ہے۔ جرمن انوائرمنٹ ایجنسی (UBA) کے مطابق اکہتر فیصد ملکی زرعی علاقہ جانوروں کے چارے کی پیدوار کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے جو براہ راست خوراک پیدا کرنے والی فصلوں کا چار گنا ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ گوشت کی افزائش بڑھتی جا رہی ہے اور زرعی اراضی بھی اس باعث دباؤ میں ہے۔ برازیل سمیت کئی ملکوں میں پالتو جانوروں کے لیے چارہ بھی جنگلات سے حاصل کیا جا رہا ہے اور یہ جنگل کی تباہی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ماحول دوست سائنسدانوں اور ریسرچرز کا کہنا ہے کہ انسانوں کو اپنی غذائی رویوں کو تبدیل کرنا اشد ضروری ہو گیا ہے۔گوشت نہ کھانے سے انسانی جسم میں رونما ہونے والی تبدیلیاں
میٹ اٹلس میں گوشت کی صنعت کو بڑی بڑی کیمیائی کمپنیوں کے ساتھ بھی منسلک دکھایا گیا ہے۔ ان کمپنیوں کی تیار کردہ کیڑے مار ادویات کا براہ راست تعلق بھی گوشت انڈسٹری سے ہے۔ یہ کیڑے مار ادویات انسانوں کی حیات اور زمینی تنوع کی بقا کے لیے شدید خطرہ ہیں۔ تمام ماہرین کا اتفاق ہے کہ عالمی زرعی پالیسیوں میں تبدیلی زمین کے ماحول کے لیے ضروری ہو گئی ہے۔
ٹامزین کیٹ والکر (ع ح، ک م)