’گوشت کے استعمال میں تباہ کُن اضافہ ہو جائے گا‘
10 جنوری 2014ان گروپوں نے جمعرات کو گوشت کے استعمال سے متعلق ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کا عنوان ’2014ء میٹ ایٹلس‘ ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ 2050ء تک گوشت کی طلب کے باعث زمین کا استعمال بھی تباہ کُن سطح پر پہنچ جائے گا۔ یہ صورتِ حال ایشیا میں بالخصوص شدت سے محسوس کی جائے گی۔
اس رپورٹ کے مطابق اس عرصے تک دنیا بھر میں گوشت کا استعمال 470 ملین ٹن ہو جائے گا۔ ماحول کے ساتھ ساتھ معاشرے پر بھی اس رجحان کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ حجم موجودہ استعمال کی حد سے ڈیڑھ سو ملین ٹن زائد ہے۔
دنیا بھر میں قابلِ کاشت اراضی کا ستّر فیصد پہلے ہی مویشیوں کے لیے چارہ اُگانے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ جرمنی کی ہائنرش بؤل فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ اس وجہ سے غریبوں کے زیر استعمال اراضی کا رقبہ کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔
اس مطالعاتی رپورٹ کے مطابق 2022ء تک اسّی فیصد گوشت کی متوقع پیداوار بھارت اور چین میں ہو گی۔ برازیل، جنوبی افریقہ اور روس بھی گوشت کے استعمال میں یورپ اور امریکا سے آگے نکل جائیں گے۔ یورپ اور امریکا میں گوشت کی فروخت کم ہو چکی ہے۔
جرمنی میں 2012ء کے دوران شہریوں نے اوسط ساٹھ کلوگرام گوشت استعمال کیا۔ چین میں گوشت کا فی کس استعمال اڑتیس کلوگرام ہے جبکہ افریقہ میں بیس کلوگرام ہے۔
خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق ہائنرش بؤل فاؤنڈیشن کی صدر باربرا اُنمیوسش کا کہنا ہے کہ ایشیائی ملکوں میں گوشت کی پیداوار مغرب کی سطح پر لانے کی خواہش کے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، مثلاﹰ آلودہ خوراک کے اسکینڈل اور مویشیوں سے زیادہ گوشت حاصل کرنے کے لیے دواؤں کا غلط استعمال۔
انہوں نے کہا کہ مویشیوں کو چراگاہوں سے بڑے پیمانے پر صنعتی پیداوار کے یونٹوں میں منتقل کرنے سے اقتصادی تباہی کا راستہ کھُل رہا ہے جبکہ چھوٹے کسانوں کو بھی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
اُنمیوسش نے کہا کہ ہفتے میں ایک مرتبہ گوشت کھانا کافی ہوتا ہے۔ انہوں نے ایک یورپی روایت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’’بہتر ہو گا کہ ہم پھر سے اتوار کو گوشت کھانے کی عادت اپنا لیں۔‘‘
فرینڈز آف اَرتھ تنظیم کی جرمن شاخ بُنڈ کے زرعی ماہر رائنہِلڈ بیننگ کا کہنا ہے کہ کیڑے مار دواؤں کے ذریعے چارے کی پیداوار کے لیے زمینوں کی بڑھتی ہوئی طلب خطرناک نتائج کی باعث بن سکتی ہے۔