گولان کا مقبوضہ پہاڑی علاقہ: یہودی بستی کا نام ٹرمپ سے منسوب
17 جون 2019گولان کی پہاڑیوں سے ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق اسرائیل نے یہ فیصلہ شدید بین الاقوامی مخالفت اور تنقید کے باوجود امریکی صدر ٹرمپ کے اس فیصلے کے بعد جواباﹰ اور بطور اظہار تشکر کیا ہے، جس میں ٹرمپ نے اس مقبوضہ علاقے کو اسرائیل کا ریاستی حصہ تسلیم کر لیا تھا۔
اسرائیلی ذرائع کے مطابق اس نئی یہودی بستی کو 'رمات ٹرمپ‘ یا 'ٹرمپ ہائٹس‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں اتوار 16 جون کو منعقدہ ایک باقاعدہ تقریب میں دائیں بازو کے قدامت پسند سیاستدان اور موجودہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی پوری کابینہ شریک ہوئی۔ اس سرکاری تقریب میں اس بستی کا باقاعدہ افتتاح بھی کر دیا گیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسی سال مارچ کے اواخر میں گولان کے اس مقبوضہ پہاڑی علاقے کے بارے میں واشنگٹن کی عشروں پرانی پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے امریکی حکومت کے اس نئے سرکاری موقف کا اعلان کر دیا تھا کہ یہ علاقہ اسرائیلی ریاست کا حصہ ہے۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق شام کے ساتھ سرحد سے ملحقہ یہ خطہ اسرائیل کے قبضے میں تو ہے لیکن اس کی حیثیت آج بھی شامی علاقے کی ہے۔
اتوار کی شام منعقدہ اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے کہا کہ انہیں خوشی ہے کہ اسرائیل نے اس بستی کا نام اپنے ایک 'عظیم دوست‘ اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نام پر رکھ دیا ہے۔ اس موقع پر نیتن یاہو نے اس بستی کے نام کی اس تختی کی نقاب کشائی بھی کی، جس پر امریکی اور اسرائیلی پرچم بھی بنے ہوئے تھے۔
اس تقریب کے بعد امریکی صدر ٹرمپ نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ''وزیر اعظم نیتن یاہو اور اسرائیلی ریاست کا اس عظیم اعزاز کے لیے بہت شکریہ۔‘‘ اس موقع پر اسرائیلی وزیر اعظم نے یہ بھی کہا، ''گولان کا علاقہ اسرائیل کا حصہ ہے اور اس کی حیثیت ہمیشہ یہی رہے گی۔‘‘
اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ 1967ء کی چھ روزہ عرب اسرائیلی جنگ کے دوران کیا تھا اور یہ علاقہ اسٹریٹیجک حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس بارے میں اتوار کو اس خطے کے شمال میں ایک خیمے میں منعقدہ تقریب میں اسرائیل میں امریکی سفیر ڈیوڈ فریڈمین بھی شریک ہوئے، جنہوں نے اس نئی یہودی بستی کا نام صدر ٹرمپ کے نام پر رکھے جانے کو 'ایک غیر معمولی اقدام‘ کا نام دیا۔
م م / ع ا / اے ایف پی