گولان کی پہاڑیوں پر اقوام متحدہ کی قرارداد، امریکا کی مخالفت
16 نومبر 2018
امریکا نے اعلان کیا ہے کہ وہ گولان کے پہاڑیوں سے اسرائیلی قبضے کے خلاف اقوام متحدہ کی سالانہ قرارداد کی مخالفت کرے گا۔ اسرائیل نے اس امریکی اعلان کا خیرمقدم کیا ہے۔
اشتہار
اقوام متحدہ کی جانب سے گولان کے پہاڑی علاقے پر اسرائیلی قبضے کے خاتمے کے لیے ہر سال ایک قرارداد منظور کی جاتی ہے، تاہم پہلی دفعہ امریکا نے اس قرارداد کی مخالفت کا اعلان کیا ہے۔
گولان کے علاقے میں قریب 12 سو مربع کلومیٹر کا اعلان بفر زون کہلاتا ہے، جہاں اقوام متحدہ کی امن فوج تعینات ہے۔ اسرائیلی نے سن 1967 کی عرب اسرائیلی جنگ میں گولان کے اس پہاڑی علاقے کا زیادہ تر حصہ اپنے قبضے میں کر لیا تھا جب کہ سن 1981 میں اسے اسرائیل میں شامل کر لیا گیا تھا۔ اسرائیل کے اس اقدام کو عالمی برادری تسلیم نہیں کرتی ہے۔
اس سے قبل اس عالمی قرارداد میں امریکا اپنے ووٹ کا حق استعمال نہیں کرتا تھا۔ ’مقبوضہ شامی گولان‘ نامی اس سالانہ قرارداد میں اسرائیل سے کہا جاتا ہے کہ وہ اس علاقے سے اپنی عمل داری ختم کرے تاہم اس بار اقوام متحدہ میں تعینات امریکی سفیر نِکی ہیلی نےکہا ہے کہ امریکا اس بار اس قرارداد کے خلاف ووٹ ڈالے گا۔
جمعرات کو اپنے ایک بیان میں نِکی ہیلی کا کہنا تھا، ’’امریکا اب مزید اس قرارداد پر اپنے ووٹ کا حق محفوظ نہیں رکھے گا اور گولان کے پہاڑی سلسلے سے متعلق اس نامناسب قرارداد کے خلاف ووٹ ڈالے گا۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’یہ قرارداد سراسر اسرائیل مخالف ہے۔ شامی حکومت کی جانب سے ظالمانہ کارروائیاں ثابت کر چکی ہیں کہ وہ کسی پر بھی حکم رانی کے لائق نہیں۔‘‘
اس سے قبل امریکی سفیر برائے اسرائیل ڈیوڈ فریڈمن نے ستمبر میں کہا تھا کہ انہیں توقع ہے کہ اسرائیل گولان کے پہاڑی سلسلے پر اپنی عمل داری قائم رکھے گا۔
یروشلم سن 1967 میں اور اب سن 2017 میں؟
فلسطینی اسرائیلی تنازعے میں یروشلم ایک اہم وجہ اختلاف قرار دیا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سن 1967 کی چھ روزہ جنگ میں یہ شہر کیسا تھا اور اب تقریبا پچاس برس بعد یہ کیسا دکھتا ہے؟
تصویر: Reuters/A. Awad
آج کا ’جبل زیتون‘
’ماؤنٹ آف اولیوَز‘ یا جبل زیتون سے لی گئی اس تصویر میں یروشلم کا منظر نمایاں ہے۔ سنہری رنگت والا ’گنبد الصخرا‘ قدیمی شہر کے مشرق میں واقع ہے۔ اس مقام پر یہودیوں کا قدیمی قبرستان بھی ہے۔ یہاں زیتون کے درخت بہتات میں پائے جاتے تھے، اس مقام کا نام اسی نسبت سے رکھا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’جبل زیتون‘
عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ پانچ سے دس جون تک جاری رہی تھی۔ یہ تصویر سات جون سن 1967 کو لی گئی تھی۔ اگر اس تصویر میں قدیمی شہر واضح نہ ہوتا تو دیکھنے والا شائد سمجھ نہ سکتا کہ یہ کون سا مقام ہے۔
تصویر: Government Press Office/REUTERS
آج کی الاقصیٰ مسجد
یہ مسجد ٹمپل ماؤنٹ میں واقع ہے۔ یہ مقام نہ صرف مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس ہے بلکہ یہودیت میں بھی اسے بہت زیادہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہودی روایات کے مطابق اسی مقام پر دو انتہائی مقدس ٹمپل تھے، جن کا تذکرہ بائیبل میں بھی ملتا ہے۔ مکہ اور مدینہ کے بعد اسلام میں یہ تیسرا سب سے زیادہ مقدس مقام ہے۔ اسی طرح مسیحیت میں بھی ٹمپل ماؤنٹ مذہبی اعتبار سے بہت مقدس ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کی الاقصیٰ مسجد
الاقصیٰ مسجد یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسرائیل نے اس علاقے کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔ تب سے یہاں اسرائیلی حکومت کا سخت کنٹرول ہے۔ تاہم اتفاق کیا گیا تھا کہ یروشلم میں واقع ٹمپل ماؤنٹ کا انتظام ’وقف‘ نامی ایک مسلم مذہبی ٹرسٹ چلائے گی۔
تصویر: Reuters/
آج کا ’باب دمشق‘
یروشلم کا یہ تاریخی دروازہ قدیمی شہر میں داخل ہونے کا ایک انتہائی اہم راستہ ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے اسی علاقے میں فلسطینوں کی طرف سے اسرائیلیوں پر کیے جانے والے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آج کل یہ مقام سکیورٹی کے حوالے سے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’باب دمشق‘
یہ دروازہ جولائی سن 1537 میں عثمانیہ دور کے سلطان سلیمان نے بنوایا تھا۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لے گئی ہے، جس میں یہ دروازہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔ قدیمی شہر میں داخل ہونے کے سات دروازے ہیں، جن میں سے یہ ایک ہے۔
تصویر: Reuters/
آج کا قدیمی شہر
یروشلم کا قدیمی شہر سن انیسو اکیاسی سے یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ مختلف مذاہب کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی مسجد الاقصیٰ اور گنبد الصخرہ کے علاوہ یہودیوں کا ٹمپل ماؤنٹ اور ویسٹرن وال بھی یہیں واقع ہیں جبکہ مسیحیوں کا مقدس ترین مقام ’چرچ آف دی ہولی سپلکر‘ بھی یروشلم میں ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کا قدیمی شہر
یہ مقام ہمیشہ سے ہی انتہائی مصروف رہا ہے، جہاں دکانیں بھی ہیں اور سیاحوں کے لیے دلکش مناظر بھی۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لی گئی تھی۔ پچاس سال بعد بھی یروشلم کے اس قدیمی بازار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ تب بھی انتہائی شاندار تھا اور اب بھی ویسا ہی ہے۔
تصویر: Reuters/Fritz Cohen/Courtesy of Government Press Office
آج کی ’مغربی دیوار‘
ویسٹرن وال (مغربی دیوار) یا دیوار گریہ یہودی مذہب میں بہت زیادہ مقدس تصور کی جاتی ہے۔ یہودی مذہب کے ماننے والے اس دیوار کو چھو کر اور اس کے ساتھ کھڑے ہو کر عبادت بھی کرتے ہیں۔ اس دیوار کی زیارت کی خاطر خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ مقامات تفویص بھی کیے گئے ہیں تاہم یہاں ہر کوئی سکیورٹی چیک کے بعد جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کی ’مغربی دیوار‘
مغربی دیوار (ویسٹرن وال) کو دیوار گریہ بھی کہا جاتا ہے لیکن یہودی مذہب میں اسے حقارت آمیز اصطلاح تصور کیا جاتا ہے اور یہودی اسے اس نام سے نہیں پکارتے۔ یہ تصویر یکم ستمبر سن 1967 میں لی گئی تھی۔
ڈونڈ ٹرمپ کے منصب صدارت سنبھالنے کے بعد اسرائیل نے گولان کے پہاڑی سلسلے پر اپنا قبضہ کے حق میں امریکی حمایت کی بھرپور مہم چلائے رکھی ہے۔ اس سے قبل ٹرمپ نے سابقہ امریکی صدور کی روایت کے برخلاف اسرائیل میں قائم امریکی سفارت خانے کو بھی تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا قدم اٹھایا تھا۔