گولن تحریک سے وابستگی کے شبے میں جرمن خاتون گرفتار
6 اگست 2016جرمن ذرائع ابلاغ کے مطابق جرمن خاتون کی گرفتاری پندرہ جولائی کی ناکام فوجی بغاوت کے تناظر میں ہونے والی گرفتاریوں کے سلسلے کا حصہ ہے۔ ان جرمن خاتون کی گرفتاری چند روز قبل عمل میں لائی گئی تھی۔ جرمن دفتر خارجہ کے ایک ترجمان نے مزید تفصیلات فراہم کیے بغیر ان اطلاعات کی تصدیق کی ہے۔
جرمن اخبار ’زوڈ ڈوئچے سائٹنُگ ‘ اور جرمن نشریاتی اداروں ’ این ڈی آر ‘ اور ’ ڈبلیو ڈی آر ‘ کے مطابق اس خاتون پر اسلامی مبلغ فتح اللہ گولن سے تعلق رکھنے کا شبہ ہے، جو آج کل امریکا میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ دوسری جانب گولن نے اس بغاوت سے اپنی لا تعلقی ظاہر کی ہے۔ اس بغاوت کے بعد ہزاروں فوجی افسروں کو یا تو گرفتار اور یا پھر ملازمتوں سے برخاست کر دیا گیا تھا۔ انقرہ میں پندرہ جولائی کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے اب تک مبینہ طور پرگولن کے حمایتی سمجھے جانے والے 60 ہزار سے زیادہ افراد کو سرکاری اور نجی ملازمتوں سے برطرف یا معطل کیا جا چکا ہے۔ ان میں فوج، میڈیا، عدلیہ اور سول سروس کے لوگ شامل ہیں۔
ترک حکام کا کہنا ہے کہ جرمن خاتون کو ان کی رہائش گاہ سے ایسی کتابیں ملنے کے بعد گرفتار کیا گیا ہے جن سے ان کے گولن تحریک سے وابستہ ہونے کا شبہ ہوتا ہے۔ یہ خاتون بغاوت کے بعد کیے جانے والے کریک ڈاون سے متاثر ہونے والی پہلی جرمن شہری ہیں۔ جرمن دفتر خارجہ کے ذرائع نے بتایا ہے کہ انقرہ میں جرمن سفارت خانہ ان خاتون سے رابطہ کرنے کی کئی روز سے کوشش کر رہا ہے لیکن اسے ابھی تک کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ ان کی شناخت کے حوالے سے کوئی تفصیلات جاری نہیں کی گئی ہیں۔ یہ بھی واضح نہیں ہے کہ وہ ترکی میں کیوں مقیم تھیں۔ آیا وہ وہاں مستقل طور پر قیام پذیر تھیں اور یہ کہ ان کے پاس جرمن شہریت کے ساتھ ساتھ ترکی شہریت بھی تھی یا نہیں۔